امریکی ریاست وسکونسن میں عدالت نے کائل رٹن ہاس نامی اٹھارہ سالہ سفید فام نوجوان کو قتل کے مقدمے میں بری کردیا ہے۔ امریکہ میں اسلحہ کلچر میں روز افزوں اضافے اور اس فیصلے کے مضمرات کے پیش نظر امریکہ میں اس مقدمے پر سب کی نظریں تھیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اس پر برہمی کا اظہار مگر اس کے احترام کا اعلان کردیا ہے۔امریکہ میں اسلحہ تشدد کی بڑھتی ہوئی شرح اور آٹو میٹک اسلحہ لائسنسوں تک عوام، بالخصوص نوجوانوں، کی رسائی کی وجہ سے اس مقدمے میں عوامی دلچسپی بڑھ گئی تھی جس کو دیکھتے ہوئے مقدمے کے دوران عدالت کے باہر ان گنت صحافی موجود رہے اور امریکی عوام کو مسلسل آگاہ کرتے رہے۔ یاد رہے کائل رٹن ہاس نے پچھلے سال پچیس اگست کو اپنے آٹومیٹک بندوق سے دو سیاہ فام بندوں کو ہلاک اور دو کو زخمی کیا تھا۔ ہوا یوں کہ وسکونسن کے کینوشا شہر میں پولیس نے ایک سیاہ فام شخص جیکب بلیک کو فائرنگ سے ماردیا تو اس کے بعد پر تشدد مظاہرے شروع ہوئے۔ رٹن ہاس اپنے گھر سے تقریبا 20 میل کے فاصلے پر واقع شہر کینوشا گئے تھے تاکہ کاروبار کی حفاظت کیلئے رضاکار کا کام کریں۔ وہاں اس نے ایک AR-15 بندوق ایک دوست کے ذریعے خرید لی کیوں کہ وہ خود چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسے خرید نہیں سکتا تھا۔ رات دیر گئے جب اکثر مظاہرین منتشر ہو گئے تو اس کا سامنا ایک پریشان حال 36 سالہ سیاہ فام شخص سے ہوا جسے تلخ کلامی کے بعد اس نے چار گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد بھاگتے ہوئے اس نے تین اور آدمیوں، جو اس کا پیچھا کر رہے تھے، پرگولیاں چلادیں جن میں ایک مرگیا اور دو زخمی۔ یہ ساری کاروائی ویڈیو میں ریکارڈ کرلی گئی۔استغاثہ کے مطابق رٹن ہاس کا یہ حملہ نسل پرستی پر مبنی تھا، اس نے بندوق ساتھ رکھ کر اور اس سے لوگوں کا نشانہ لے کر قتل کیا اور اس کے پاس کسی کو گولی مارنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ جبکہ دفاع یعنی لڑکے کے وکلا نے موقف اختیار کیا تھا کہ اصل وہ مدد کرنے کیلئے کینوشا گیا تھا، مجرموں نے اس پر حملہ کیا اور اسے اپنی جان بچانے کیلئے گولیاں چلانی پڑیں۔عدالت کو فیصلہ کرنا تھا کہ احتجاج میں بندوق اٹھانا اشتعال انگیزی اور غلط ہے یا بندوق برداروں کو اپنی اور دوسروں کی حفاظت کیلئے بندوق رکھنے اور اسلحہ استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ عدالت نے لڑکے کو بری کرکے اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کے حق پر مہر تصدیق ثبت کرلی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اکثر امریکی ریاستوں میں قانون میں ابہام ہے کہ کوئی کب اپنے دفاع کیلئے بندوق کا استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن ایک طرف اگر اکثر ریاستوں میں کھلے عام بندوق رکھنے کی اجازت ہے مگر اس سے کسی کا نشانہ لینا یا لہرانا منع ہے۔ عام طور پر قانون یہ ہے کہ اگر کسی نے لڑائی خود شروع کی تو وہ دفاع کی دلیل نہیں دے سکتا۔ رٹن ہاس کی بریت کا مطلب یہ ہے کہ اگر بندوق ہی وہ چیز ہو جو خطرہ اور لڑائی کی وجہ بن جائے پھر بھی اسے اپنے دفاع کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس فیصلے کے خطرناک مضمرات نے وہاں اہل علم کو ڈرا دیا ہے، وہاں اسلحہ کلچر کو ختم کرنے کی بحث پھر تازہ ہوگئی ہے اور مقامی رہنماؤں اور پالیسی سازوں میں اب اس کو کنٹرول کرنے کا احساس بڑھ رہا ہے۔امریکی آئین کی دوسری ترمیم کے تحت امریکی شہریوں کو آتشیں اسلحہ پاس رکھنے کا حق حاصل ہے اور پیو ریسرچ کے مطابق ہر تیسرے امریکی کے پاس ذاتی بندوق موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں نجی ملکیت میں تقریبا تیس کروڑ آتشیں اسلحہ موجود ہے۔ امریکہ گن کلچر اور گن وائلنس سے بری طرح متاثر ہے۔ ہر سال امریکہ کے سکولوں، بازاروں، نائٹ کلبوں اور سڑکوں پر قتل عام کے واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں‘ 2017 میں لاس ویگاس میں ایک عمارت سے فائرنگ کر کے 58 افراد مارے گئے تھے۔ یہ جدید امریکی تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر غریب، سیاہ فام، ایشیا نژاد، دوسرے مذاہب سے وابستہ لوگوں، بچوں، نوجوانوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پچھلا اور موجودہ سال بد ترین سال ثابت ہوئے ہیں۔ پچھلے سال ساڑھے انیس ہزار افراد اسلحہ تشدد میں مرے تھے۔ اس سال نومبر تک ساڑھے اٹھارہ ہزار افراد قتل، چھتیس ہزار زخمی اور ساڑھے چھ سو اجتماعی قتل کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ امریکی معاشرے میں گن کلچر کی ترویج میں بندوق بردار تاریخی کا بوائز، ٹومی گنوں سے مسلح مافیا کے افراد، اسلحہ کی فراوانی اور عام دستیابی، قانونی اجازت، نسل پرستی، غربت، نظام انصاف کی کمزوریوں اور پر تشدد فلموں اور ویڈیو گیمز نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ملک میں اسلحہ کی خرید و فروخت پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے جس کی بنا پراس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں گن کنٹرول کیلئے مختلف ریاستوں میں مختلف قسم کے قوانین لاگو ہیں۔ وفاقی حکومت ریاستوں اور امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے عدم تعاون کی وجہ سے آتشیں اسلحہ کا استعمال اب تک غیر قانونی قرار نہیں دے سکی ہے صدر بائیڈن کے مطابق اسلحہ تشدد میں اتنے شہریوں کی ہلاکت بطور قوم امریکی شناخت کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔ امریکہ مگر پھر بھی دوسرے ممالک میں تشدد اور انتہا پسندی کے بارے میں رپورٹس شائع کرتا اور ان کی درجہ بندی کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔جو بائیڈن نے اسلحہ تشدد میں کمی لانے کیلئے متعدد صدارتی حکم نامے جاری کیے ہیں۔ اس سال جون میں انہوں نے ملک بھر میں اسلحے کے پھیلا کو روکنے کیلئے کانگریس پر زور دیا کہ وہ اسلحہ کنٹرول کیلئے قانون سازی کرے۔ انہوں نے کانگریس سے چھوٹے ہتھیار بنانے کی صنعت سے وابستہ لوگوں کو دئیے گئے قانونی استثنیٰ کو ختم کرنے، جنگ میں استعمال ہونے والی بندوقوں پر پابندی عائد کرنے کا کہا۔ تاہم مبصرین کے مطابق اس سلسلے میں صدر بائیڈن کو سینیٹ سے حمایت ملنے کے امکانات کم ہیں۔ جن شہروں میں اسلحہ تشدد زیادہ ہے ان کیلئے صدر بائیڈن نے مزید وسائل فراہم کرنے کا اعلان کیا تاکہ شہری انتظامیہ پولیس تعداد بڑھا اور کمیونٹی کا تحفظ کر سکے۔ انہوں نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کے ہاتھ میں اسلحہ آنے کی بجائے تنخواہ آئے۔ امریکی صدر اور اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے پرتشدد جرائم میں کمی کیلئے چند ماہ قبل ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کیا تھا جن میں آتشیں اسلحے کے پھیلاؤ میں کمی لانا، وفاق کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کی وسائل اور ہتھیاروں میں مدد، ثبوتوں کے ساتھ کمیونٹی تشدد میں دخل اندازی، سمر پروگرامنگ میں توسیع، ملازمت کے مواقع اور جیلوں میں بند افراد کی سماجی بحالی شامل ہیں۔ مزید ایسے چھوٹے ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکا جائے گا جن کا سیریل نمبر نہیں اور ان کا پتہ چلانا مشکل ہوتا ہے۔