انجام کار مودی سرکار کو بھارت کے ان ہزاروں کسانوں کے آ گے اپنے گھٹنے ٹیکنے پڑ ہی گئے جو کئی مہینوں سے حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ ان تین زرعی قوانین کو منسوخ کرے کہ جو بقول ان کے کسانوں کے مفادات کے خلاف ہیں بھارتی حکومت اب ان متنازعہ قوانین کو واپس لے رہی ہے جس کے بعد کسانوں کا جم غفیر جو اب سڑکوں پر ہے منتشر ہو جائے گا۔ اس سے بھارت سرکار کا یقینا کم ازکم ایک سر درد تو ختم ہوگا۔ چین کے ساتھ اس کا سرحدی تنازعہ جوں کا توں ہے اسے چپکے چپکے کئی علاقے خالی کرنے پڑ رہے ہیں۔کیونکہ بقول چینکے وہ ماضی میں ہمیشہ سے ہی چین کا حصہ تھے۔بھارت اپنی اس خفت پر پردہ ڈالنے کیلئے ان علاقوں سے بغیر کسی مقابلے کے اپنی پسپائی کو چھپا رہا ہے۔ افغانستان میں بھی باوجود کوشش بسیار ابھی تک وہ اپنے قدم جما نہیں سکا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو اس خطے میں چین کے خلاف کھڑا تو کر دیا ہے پر لگ نہیں رہا کہ وہ اس کے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات میں اس کی کھل کر کر حمایت کر سکے۔ آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت یہ بات نا ممکن ہوتی جا رہی کہ کسی بھی غلط بات کو چھپایا جا سکے اگر ایک اخبار یا ایک ٹیلی ویژن چینل کسی خبر کا بلیک آ وٹ کرے گا تو وہ کسی دوسرے اخبار یا ٹیلی ویژن چینل میں شائع یا ٹیلی کاسٹ ہو جاے گی ماضی میں البتہ خبروں کو بہ آ سانی دبایا جا سکتا تھا جب تک سویٹ یونین قائم تھا تو وہاں ابلاغ عامہ کے دو ادارے بڑے مقبول تھے اور سویت یونین سے جو بھی خبریں آ تی تھیں تو وہ ان دو اداروں کے ذریعے ہی آ تی تھیں ایک ادارے کا نام تھا ازویستیا izvestia اور دوسرے کا نام تھا پراودا pravda ۔روسی زبان میں ازویستیا کا لغوی مطلب ہے خبر اور پراودا کے معنی ہیں سچ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ نامور اخبارات تھے ازویستیا سویت یونین کا سرکاری اخبار تھا تو پراودا کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان۔امریکیوں نے ان کے بارے میں یہ لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر ازویستیا پڑھو تو اس میں پراودا نہیں ہوتا اور اگر پراودا پڑھو تو اس میں ازویستیا نہیں ہوتا چونکہ بات چلتے چلتے نشریاتی اور اشاعتی اداروں تک جا پہنچی ہے تو کیوں نہ بی بی سی کا ذکرہو جائے کہ پاکستان میں ریڈیو سننے والوں کا یہ اب تک محبوب ریڈیو سٹیشن رہا ہے۔۔1970 کی دہائی میں بی بی سی کے ایک نمائندے مارک ٹیلی کی خبریں پاکستان میں بڑے شوق اور جستجو سے سنی جاتی تھیں اور وہ اکثر درست ہوتیں وہ بڑی دور کی کوڑی لایا کرتے تھے ان کا مستقل قیام تو نئی دلی تھا پر پاکستان ان کا اکثر آ نا جانا رھتا۔ بھٹو کے دور میں پی این اے کی سیاسی تحریک کے بارے میں وہ کئی مہینوں تک پاکستان میں مقیم رہے اور وطن عزیز کے سیاسی حالات پر سیر حاصل خبریں اور تبصرے نشر کرتے رہے۔ برطانیہ کا غالبا ً دنیا کے ان معدود چند ممالک میں شمار ہوتا ہو گا کہ جہاں ٹیلی ویژن کے ظہور کے بعد بھی وہاں کے ریڈیو کی مقبولیت اور افادیت میں رتی بھر فرق نہیں پڑا۔ہاں البتہ یہ حقیقت ضرور ہے کہ وہاں اخبارات کے قارئین اخبارات اب خبریں پڑھنے کیلئے نہیں خریدتے کہ وہ تو لمحہ بہ لمحہ ان کو ٹی وی کو سننے سے مل جاتی ہیں وہ آج کل اخبارات ان کے اداریوں کالموں اور تجزیاتی رپورٹس پڑھنے کیلئے خریدتے ہیں۔ لاہور سے 1960 کی دہائی تک ایک اخبار نکلا کرتا تھا جس کا نام تھا سول اینڈ ملٹری گزٹ اس اخبار کا اجرا تقسیم ہند سے قبل فرنگیوں کے دور سے ہوا تھا اور اس کا ایڈیٹر ہمیشہ کوئی فرنگی ہوا کرتا تھا اس کے پہلے مسلمان ایڈیٹر کا نام حمید شیخ تھا جو بعد میں اس وقت پاکستان ٹائمز سے منسلک ہو گئے کہ جب یہ اخبار چھپنا بند ہو گیا ایک زمانہ تھا کہ جب پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹوریل فیض احمد فیض اور مظہر علی خان جیسے بلند پایہ لکھاری لکھا کرتے تھے اور جب معروف گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ انگریزی میں پڑھانے والے اساتذہ اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے کہ اگر درست انگریزی لکھنے کا ہنر سیکھنا چاہتے ہو تو پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹوریل پڑھا کرو۔