مرکزی مالیاتی ادارے (سٹیٹ بینک آف پاکستان) نے قبل ازوقت نئی زری (مانیٹری) حکمت عملی (پالیسی) کا اعلان کرتے ہوئے بنیادی شرحِ سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کا اضافہ کیا ہے یعنی شرحِ سود 7.25 فیصد سے بڑھا کر 8.75فیصد کر دی گئی ہے اور ایسا کرنے کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ مہنگائی اور ادائیگیوں میں توازن پیدا کیا جا سکے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر یہ خطرات پیدا کیوں نہ ہوں؟ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ ملک میں معاشی اور خصوصاً قیمتوں میں استحکام پیدا کرکے عوام کو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نجات دلائیں۔ اس مقصد کے لئے جس فلاحی پیکج کا اعلان کیا گیا وہ ناکافی ہے اور اِس بات کو سمجھتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے اوگرا کی سفارش کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں کیا جبکہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں میں بھی کمی کی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو روپیہ کنٹرول ہورہا ہے اور نہ مہنگائی۔ مہنگائی کی وجہ جہاں عالمی سطح پر مہنگائی ہے وہیں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے سبب بھی اشیا کی قیمتوں کو قرار نہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے حقیقی شرح مبادلہ یا ریئل افکیٹو ایکسچینج ریٹ زیادہ سے زیادہ 164 روپے ہونا چاہئے مگر چونکہ سرمایہ کاروں کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض حاصل کرنا تھا اور سعودی عرب کی جانب سے دیئے جانے والے سرمائے (فنڈنگ) کی تفصیلات بھی دستیاب نہیں‘ اس لئے موجودہ قومی مالیاتی شعبہ غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے اور جب تک یہ غیریقینی کی صورتحال برقرار رہے گی مارکیٹ پر عدم استحکام کا غلبہ رہے گا‘ جس کے باعث مہنگائی اور ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس صورتحال میں سٹیٹ بینک کو مداخلت کرنی چاہئے مگر وہ ایسا نہیں کررہا ہے اور سٹیٹ بینک کی جانب سے اگر کوئی اقدام (ایکشن) دیکھنے میں آیا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ افغانستان جانے والے ڈالروں (زرِمبادلہ) کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک حد مقرر کی گئی ہے۔حکومت مانتی ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سٹے بازی ہے۔ اِس بارے میں وزیرخزانہ شوکت ترین کا بیان آنے کے پانچ روز بعد گورنر سٹیٹ بینک نے بینکوں کے صدور کا اجلاس طلب کیا اور اُن سے روپے کی قدر کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ اس اجلاس کے بعد بعض ذرائع ابلاغ نے یہ خبر چلائی کہ سٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں سٹے بازی کرنے والے بینکوں کے خلاف ڈنڈا اٹھا لیا ہے تاہم اس اجلاس میں شریک بینک صدور نے سٹیٹ بینک کے سخت اقدامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی بینک روپے کی قدر میں سٹے بازی میں ہمیں ملوث نہیں سمجھتا۔ سٹیٹ بینک اور ایف آئی اے مسلسل ہمارے زرِمبادلہ نظام کی نگرانی کررہے ہیں اور تاحال ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ سٹیٹ بینک نے بینکوں کی ٹریژری کو مزید محتاط رویہ اپنانے کی ہدایت کی۔ ذہن نشین رہے کہ جاری مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کے ابتدائی چار ماہ میں جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارہ تین ارب چالیس کروڑ ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے! اِس موقع پر اگر سٹیٹ بینک کی زرِمبادلہ پالیسی اور زری پالیسی کا موازنہ کیا جائے تو دونوں میں متضادات دکھائی دیتے ہیں‘ جس کی وجہ سے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایک طرف سٹیٹ بینک نے زرِمبادلہ پالیسی کے ذریعے روپے کی قدر کو مارکیٹ مقرر (base) کردیا ہے جس کی وجہ سے روپیہ ایک پینڈولم کی طرح جھول رہا ہے۔ روپے کی قدر میں اس قدر تیزی سے کمی بیشی ہو رہی ہے جس سے نہ تو درآمد کنندہ نہ ہی برآمد کنندہ اور نہ ہی سرمایہ کار کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس پالیسی سے حکومت کے پاس ڈالر بھی نہیں بچ رہے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زرِمبادلہ ذخائر میں کمی ہورہی ہے اور جب بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہوتی ہے تو اِس سے مہنگائی بڑھتی ہے جبکہ مہنگائی بڑھنے کا دوسرا محرک ”شرحِ سود“ ہوتا ہے جس میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ بنیادی شرحِ سود بڑھانے سے کاروباری سرگرمیاں مفلوج ہوتی ہیں‘ جن کاروباری اداروں نے بینکوں سے قرض لیا ہوتا ہے‘ انہیں بڑھتی مہنگائی کے ساتھ بڑھتے سود کی ادائیگی بھی کرنی پڑجاتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر کاروبار کو پھیلانے کے بجائے سکیڑنا پڑتا ہے اور یہ تو سب کو ہی معلوم ہے کہ جب کاروبار میں کمی ہوتی ہے تو روزگار کے مواقع بھی گھٹ جاتے ہیں۔ کسی بھی حکومت کی زری اور زرِمبادلہ پالیسی سے براہِ راست عوام کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ زری پالیسی اقتصادی و سماجی لحاظ سے قومی سطح پر غربت اور ترقی پر اثرانداز ہوتی ہے اور اِس سے عدم مساوات اور غربت جنم لیتی ہے۔ شرح سود میں کمی کے ساتھ ضروری ہے کہ سٹیٹ بینک کے مہنگائی بڑھنے میں عمل دخل کو تسلیم کیا جائے۔ عام آدمی کیلئے اقتصادی تکنیکی اصلاحات سمجھنا مشکل ہے اُس کیلئے مہنگائی جانچنے کا پیمانہ یہی ہے کہ اُسے بنیادی استعمال و ضروریات کی اشیا سستے داموں نہ سہی مقررہ داموں سے دستیاب ہوں لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔