آئینی حدود و قیود

 ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم تھے انہوں نے ایک دن لندن کے پولیس کمشنر سے کہا کہ مجھے روزانہ اپنے دفتر سے پارلیمنٹ جانا پڑتا ہے۔ راستے میں ٹریفک کی رش کی وجہ سے میں دس منٹ اکثر لیٹ ہو جایا کرتا ہوں۔اس لئے بہتر ہوگا کہ جن اوقات کے اندر اپنے دفتر سے پارلیمنٹ کی طرف جانے کو میں نکلوں تو اپ پارلیمنٹ اور میرے دفتر کے درمیان سڑک پر عام ٹریفک دس منٹ کیلئے ذرا روک لیا کریں تا کہ میری آ مد و رفت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ وزیراعظم کو پولیس کمشنر نے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ سر ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سے عوام کی ٹریفک میں دس منٹ کا خلل پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا بہتر ہوگا اگر اپ پارلیمنٹ کے لئے جانے کیلئے اپنے دفتر سے وقت مقررہ سے دس منٹ پہلے نکل آ یا کریں۔اب آپ ذرا سوچئے کہ کیا ہمارا کوئی پولیس افسر اس قسم کی جسارت کرنے کی سوچ بھی سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اگر ایسا کرے گا تو چشم زدن میں اسے گھر بھیجا جا سکتا ہے۔قانون کی پاسداری اور اداروں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرناوہ دو عناصر ہیں جن سے اکثر درپیش مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔غیر قانونی احکامات کی تکمیل کے انکار پر ہم نے درجنوں سرکاری اہلکاروں کو ان کے مناصب سے ہٹتے او ایس ڈی بنتے دیکھا ہے۔ کسی بھی پارلیمانی جمہوریت کے ڈھانچے میں جب عام انتخابات کے ذریعے عوام کے نمائندے انتخاب جیت پارلیمنٹ کی نشستوں پر براجمان ہوتے ہیں تو ان کا صرف ایک ہی فریضہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ دیکھیں کہ ملک میں پہلے سے موجود قوانین میں اگر کوئی سقم رہ گیا ہے تو اسے ترمیم کے ذریعے درست کریں اس کے علاوہ اگر وہ یہ محسوس کریں کہ زندگی کے کسی شعبے میں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے تو وہ وہ اس پر بحث و مباحث کے بعد قانون سازی کریں۔ صرف اس پارلیمنٹ کوہی صحیح معنوں میں عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ قرار دیا جاتا ہے کہ جو ایسی قانون سازی کرے کہ جو عوام دوست ہو تو اب یہ کام میڈیا کا ہے کہ وہ اپنی خبروں تجزیوں اداریوں اور خصوصی فیچرز کے ذریعے عوام کو بتائیں کہ پارلیمنٹ نے جو نئے قوانین پاس کئے ہیں ان میں عوام کے مسائل کی کس حد تک دادرسی ہوئی ہے یہاں یہ سوالات کئے جا سکتے ہیں کہ کیا میڈیا اپنا یہ فرض اداکر رہا ہے۔ کیا پارلیمانی نمائندے اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے یا پرائیویٹ بلوں کے ذریعے عوام دوست قانون سازی کر رہے ہیں۔ جہاں تک سیکرٹریٹ میں بیٹھی ہوئی انتظامیہ کا تعلق ہے تو اس نے یہ دیکھنا ہوتا ہے اس بات کی تسلی کرنا ہوتی ہے کہ فیلڈ آفیسرز یعنی ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز بشمول ایگزیکٹو مجسٹریٹس ملک کے مختلف اضلاع اور سب ڈویژنز میں نہ صرف امن عامہ کے قیام کو یقینی بنا رہے ہیں بلکہ ان تمام میونسپل اور لوکل اور سپیشل لاز پر عملدرآمد بھی کرا رہے ہیں جو عوام کے مفاد کیلئے پاس کیے گئے ہیں۔ عدلیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کی تسلی کرے کہ مقننہ کوئی ایسی قانون سازی نہ کرے کہ جو آئین پاکستان کی کسی شق کے منافی ہو اور انتظامیہ سے منسلک اہلکاروں سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو کہ جو ان کے اختیارات سے تجاوز کے زمرے میں آ تی ہو۔