وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں اٹھارہ عشاریہ چونتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ شماریات کی مذکورہ ہفتہ وار رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہنگائی مسلسل ہے اور اِس میں غیرمعمولی اضافے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے‘ جو اپنی جگہ لائق تشویش ہے۔ مہنگائی کے بارے میں دو طرح کے مؤقف پائے جاتے ہیں‘پہلا مؤقف یہ ہے کہ مہنگائی عالمی عمل کا نتیجہ ہے یعنی مہنگائی کے وقوع پذیر ہونے کے محرکات مقامی نہیں بلکہ عالمی ہیں۔ دوسرا مؤقف یہ ہے کہ منصوبہ بندی سے مہنگائی پر قابو پانا ممکن تھا۔ حکومتی اراکین کی جانب سے ملک میں مہنگائی بڑھنے کو عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافے کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے‘ بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا موازنہ دیگر ایشیائی اور یورپی ممالک کے ساتھ کرتے ہیں‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان سمیت کئی ممالک مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات مہنگائی میں اضافے کا باعث بنی ہے کیونکہ اس وبا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے عالمی ادارہئ صحت کے وضع کردہ احتیاطی اقدامات بروئے کار لانے سے ترقی یافتہ ممالک کی مستحکم معیشتیں بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں چنانچہ کورونا وبا کے دوران عالمی منڈیوں میں اقتصادی‘ مالی اور کاروباری سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی۔ نتیجتاً اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوئی اور بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔پاکستان کی معیشت کورونا وبا کے ظاہر ہونے (فروری 2020ء) سے پہلے بھی زیادہ مثالی حالت میں نہیں تھی اور یہی وجہ رہی کہ جب کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر (SOPs) نافذ کئے گئے تو اِس سے معاشی سرگرمیاں سست ہونے کی صورت بُری طرح متاثر ہوئیں بلکہ کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئیں۔ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونے والے دیگر ممالک کی معیشتیں بھی متاثر ہوئی‘ جس کے باعث کساد بازاری کا عام ہوئی تو روزمرہ اشیا کے نرخوں میں اضافہ فطری عمل تھا جبکہ عالمی سطح پر بڑھنے والی مہنگائی کے ہمارے ملک پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ اس حوالے سے عالمی مہنگائی کو پاکستان میں بڑھنے والی مہنگائی کا جواز بنایا جا سکتا ہے تاہم پاکستان کی اوسط شرح آمدنی دیگر متعلقہ ممالک کی شرح آمدنی کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہماری شرح آمدنی کا بیرونی دنیا میں کوئی تقابل ہی نظر نہیں آتا جبکہ ہمارے ملک میں غربت کی شرح بھی دیگر متعلقہ ممالک کی نسبت زیادہ ہے اور خط ِغربت سے نیچے ملک کی نصف سے بھی زائد آبادی بذات ِخود المیہ ہے۔ دیگر ممالک میں مہنگائی کا اثر اِس لئے پاکستان کی نسبت کم دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہاں کے عوام کی ماہانہ آمدنی معقول ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ باعث روزافزوں مہنگائی کے منفی اثرات سے اِس قدر متاثر نہیں ہوئے جتنا پاکستان میں آمدنی کے لحاظ سے متوسط و غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اس لئے یہاں روزافزوں مہنگائی عوامی اضطراب میں اضافے کا باعث بن رہی ہے تو بے روزگاری کے بڑھتے تناسب نے بھی عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھایا ہے۔ ایک عرصے سے قومی معیشت کا المیہ ہے کہ اِسے قرضوں پر استوار کیا گیا ہے اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) سے قرض کے حصول کیلئے سخت شرائط پر عمل کیاجاتا ہے۔ موجودہ حکمران سابق حکمرانوں کو جبکہ سابق اپنے سے سابقین کو اِس بات کیلئے موردِالزام ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی قومی معیشت و اقتصادیات کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بجائے قرضوں کی صورت آسان فیصلے کئے۔اب صورتحال یہ بن گئی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہر پندرہ دن بعد اضافہ مجبوراً کرنا پڑا‘ چنانچہ جب پیٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس کے نرخ بڑھتے ہیں تو اس سے تاجروں‘ صنعتکاروں‘ کاشتکاروں کو بھی اپنی مصنوعات کے نرخ بڑھانے اور من مانے نرخ مقرر کرنے کا موقع مل جاتا ہے جس سے مہنگائی کا مجموعی تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مہنگائی بڑھنے کا ایک سبب ناجائز منافع خوری بھی ہے‘ جس کے پس پردہ کارفرما مافیا کی جڑیں معاشرے میں پھیلی نظر آتی ہیں چنانچہ وہ بلاخوف و خطر جب چاہتے ہیں اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں اور یوں من مانے نرخ مقرر کرتے ہیں جس سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی حالت مزید دگرگوں ہو جاتی ہے۔