اخلاق کا پھیلاؤ

آج کل کا زمانہ اس لئے بہتر ہے کہ آج جمہوریت ہے۔اپنی بات کہی جا سکتی ہے۔مگر پہلے تو کسی فریادی کے سلام کے انداز کو ناپسندیدہ قرار دے کر اسی وقت سرِ دربار پل جھل میں بغیرکسی تفتیش و تحقیق کے بادشاہ کے حکم پر اس کا سروہیں اتار دیتے تھے۔سو علم و آگاہی کے لحاظ سے آج کاوقت ماضی کے مقابلے میں سو درجہ اچھا ہے۔اگر کوئی موجودہ زمانے میں زندہ ہے تو اس کو شکر بجالاناچاہئے کیونکہ آج شہری کو ہر طرح کی سہولت حاصل ہے۔موجودہ وقت پہلے سے اچھا ہے‘اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے وقتوں میں یہ نئی نئی ایجادات نہیں تھیں۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ موجودہ ترقی پچھلے زمانو ں ہی کی دین ہے۔اگر ماضی کے لوگوں کادماغ نہ ہوتا تو آج اعلیٰ دماغ کے لوگ بھی نہ ہوتے۔ لیکن موجودہ زمانے میں ہر بندے کوجوسہولیات حاصل ہیں وہ پہلے زمانے میں نہ تھیں۔ اس پر غور بھی نہیں کرنا پڑتا۔ اک ذرا اپنے گرو پیش پر نظر دوڑانے ہی سے ساری واقفیت حاصل ہو جاتی ہے۔ہم آج جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ پہلے تو نہ تھی۔ دور نہ جائیں ہوائی سفر ہی کو دیکھ لیں۔ انگریزوں کے زمانے میں لندن کے ساحل سے بحری جہاز چلتا تو مہینہ بھر میں یہاں کی بندر گا ہ پرآکر لنگر انداز ہوتا۔ حج کیلئے لوگ جاتے تو پانی کے جہاز میں ہفتو ں بیٹھے رہتے۔آج کیا ہے۔مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔صبح دم قریب کے ملک میں سودا سلف لینے جاتے ہیں اور رات کو گھر واپس بھی پہنچ جاتے ہیں۔موبائل نے کیا کچھ فتح نہیں کر لیا۔پہلے علم حاصل کرنے کیلئے دوردراز کے مقامات کی سیاحت کرنا پڑتی تھی۔ لائبریریوں کیلئے ملکوں ملکوں خاک چھاننا پڑتی تھی۔مگر آج لائبریریاں اپنے گھر کے مطالعہ کے کمرے میں سمٹ آئی ہیں۔پرنٹر ساتھ پڑا ہو تو دنیا کے دور درازکتب خانے سے کوئی کتاب بھی ڈاؤن لوڈ کر کے اس کا پرنٹ نکال لو۔پہلے بھی بیماریا ں تھیں جو آج ہیں مگران کو ماضی میں کوئی جانتا نہ تھا۔ شوگر بلڈ پریشر اور چھوٹی موٹی بیماریوں سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بے مو ت مارے گئے۔ چلو آ ج قسم قسم کی دوائیاں نکلی ہیں۔ جن سے فائد ہ لے کر مریض جلد شفایاب ہو جاتے ہیں۔ٹی بی ایک لا علاج مرض تھا۔ مگرا س کا علاج نکل آیا ہے۔اب ٹی بی کا مریض صحت یاب ہو جاتا ہے۔شوگر کی گولی یاانسولین سے کام لیں اور جب تک زندگی ہے پرہیز کے ذریعہ جیتے رہیں۔بی پی کی گولی لیں اور اس میں ناغہ نہ کریں تو کام چلتا رہتا ہے۔مگر ماضی میں کتنے ہی لوگ لاعلمی کی وجہ سے دنیا سے گئے۔ اگر پہلے وائرس آیا تو پانچ کروڑسے زیادہ لوگ مر گئے۔مگر اس بار اس تعداد کے مقابلے میں بہت کم لوگ موت کے منہ میں گئے۔اسی لئے تو آج دنیا کی آبادی پہلے کے مقابلے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔پھر پاکستان کی آبادی بھی آٹھ کروڑتھی اور اب بائیس کروڑتک جا پہنچی ہے۔پچھلے زمانے سے یہ زمانہ اس لئے بہتر ہے کہ اب ہر بیماری کاکچھ نہ کچھ علاج نکل آیا ہے۔یہ موجودہ زمانہ واقفیت کا زمانہ ہے۔جیسے ہم لوگ ماضی کی ناواقفیت پر بات کرتے اور تہمت لگاتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ آنے والے زمانے کے لوگ ہمار ے اس موجودہ زمانے پر جو اُس وقت ماضی بن چکا ہوگا اپنی ایجادات کو سامنے رکھ کرہنسیں گے۔ کہیں گے وہ بھی کیا لوگ تھے جن کا بلڈ پریشر گولی کے بغیر نیچے نہیں اترتا تھا۔ آنے والے زمانے میں جانے کس کس طرح محفوظ علاج معالجہ ہوگا۔ پہلے گراموفون ہوتا تھا۔بڑے چاؤ چونچلوں سے گھر میں رکھا جاتا تھا۔ لوگ گانا سن کر بہت حیران ہوتے۔ ہر کسی کے پاس تھا بھی نہیں۔ مالی حیثیت والے لوگو ں کے پاس ہوتا۔پھر یہاں ہمار ے ہاں بنتا بھی تو نہیں تھا۔کپڑوں او ر غلافوں میں لپیٹ کر رکھا جا تا تھا۔ جس میں ایک بڑی کالے رنگ کی گول سی ڈی آتی جس میں فقط ایک ہی گانا آتا۔ہزار گانوں کیلئے ہزاروں بڑی بڑی سی ڈیاں کمرے میں پڑی ہوتیں اور وہ مہنگا سودا بھی تھا۔ پھر ٹیپ ریکارڈ آ گیا۔اب تو قریباً سولہ گانے ایک کیسٹ میں ہوتے۔ چھوٹی سی جیب میں دو کیسٹیں تو اپنے کور کے سمیت سماجاتی تھیں۔مگر پھر کیا ہوا کمپیوٹر کی چھوٹی سی ڈی آگئی۔ جس میں ان گنت گانے وہ بھی مووی گانے ہوتے۔ اب موجودہ زمانے کا حال آپ خودملاحظہ کر لیں۔کیا ہے جو آج نہیں ہے۔ایک معمولی سے میموری کارڈ میں ہزاروں گانے آتے ہیں۔پھر جیب میں ہزاروں میموری کارڈ آتے ہیں۔ بلکہ گانے وہ بھی مووی کے ساتھ ہیں۔میموری کار ڈ میں ایک چھوڑ درجنوں فلمیں پوری کی پوری سما جاتی ہیں۔کمپیوٹر نے دنیا بدلی تو موبائل نے کمپیوٹر کو زیر کر دیا۔ آج کل تو شیئرنگ کا زمانہ ہے۔کسی علمی مسئلے پر جو محفل برپا ہوئی اس کی ریکارڈنگ کرکے سیکنڈ وں کے حساب سے سات سمندر پار بھیج دیں۔ دیکھا جائے تو اچھائی اور نیکی کو پھیلانا اس وقت جتنا آسان ہو گیا ہے شاید ہی کبھی ہو تاہم اس کا احساس ضروری ہے کہ پھیلاؤ کا یہ عمل اچھائی اور نیکی کے سلسلے میں جاری رہے نا کہ منفی رویوں اور خیالات کے حوالے سے۔