امریکہ خود تو متحدہ عرب امارات میں اپنی فوجی قوت عرصہ دراز سے دھیرے دھیرے بڑھاتا چلا جا رہا ہے پر اس علاقے میں کسی بھی شکل میں اسے چین کی موجودگی تسلیم نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات میں خلیفہ نامی بندرگاہ میں کچھ عرصے سے چینی بظاہر تجارتی مقاصد کیلئے موجود تھے پر جب امریکی صدر کو امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں نے بتایا کہ تجارتی سرگرمیوں کی آ ڑ میں چین وہاں اپنی بحریہ کیلئے ایک ملٹری بیس بنا رہا ہے تو متحدہ عرب امارات نے امریکی صدر کی شکایت پر چین کو ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔ دراصل دنیا بھر میں اب امریکہ اور چین ہر جگہ ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہو رہے ہیں اور ان دو سپر پاورز کے درمیان یہ کشمکش عالمی امن کیلئے تشویش کا باعث بن رہی ہے گو یہ بات ان دو ممالک تک ہی محدود نہیں ہے۔ روس اور امریکہ کے درمیان بھی معاملات دن بہ دن کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں خصوصاً یوکرائن کے معاملے پر وہ ایک دوسرے کو آ نکھیں دکھا رہے ہیں۔ بھارت گو اگر ایک طرف خارجہ پالیسی کے محاذ پر کئی ناکامیوں کا سامنا ہے تو دوسری جانب بھارتی جنتا پارٹی کی تنگ نظر اندرونی پالیسیوں سے بھارت کے اندر بھی جگہ جگہ اس کیلئے کئی مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم کی داستان تو اپنی جگہ ہے ہی مگر کسانوں کے ساتھ پورے ڈیڑھ برس تک بھارتی حکومت نے جو جارحانہ سلوک روا رکھا ہے۔ اس سے ہندؤں سے پہلے سے ہی ناخوش سکھوں کے دلوں میں بی جے ہی کی حکومت کے خلاف نفرت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ادھر بھارت کے صوبہ ہریانہ میں جب ہندؤں نے بعض مقرر شدہ کھلی جگہوں پر مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی تو گڑگاؤں کے سکھوں نے آ گے بڑھ کر انہیں یہ پیشکش کی وہ جمعہ کی نماز ان کے گردواروں میں پڑھ سکتے ہیں۔ایسا کر کے سکھوں نے اگر ایک طرف اپنے اس فراخدلانہ اقدام سے بھارتی جنتا پارٹی کے انتہا پسند ہندؤں کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ مارا ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ برطانیہ نے فلسطینیوں کے ملٹری ونگ حماس پر جو پابندی لگائی ہے اس پر فلسطینیوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام برطانیہ کی اس نو آ بادیاتی پالیسی کا تسلسل ہے کہ جس کے تحت 1917 میں وہ Balfour declaration کے تحت ان کی سر زمین پر اسرائیل کا وجود عمل میں لایا تھا۔فلسطین کے تمام سرکردہ رہنماؤں نے برطانوی پارلیمان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برطانوی حکومت کے اس فیصلے کو رد کر دے کیونکہ اس سے مشرق وسطے کی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔بد قسمتی سے مشرق وسطی کے مسلمان آ پس میں منقسم ہیں اور اس تقسیم سے استعماری قوتیں خصوصا ً امریکا بدرجہ اتم نا جائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی وہ خواہش جو اس شعر میں پنہاں ہے اور جو ہر کلمہ گو کی دل کی آ واز ہے بد قسمتی سے ابھی تک تشنہ تعبیر ہے کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے‘نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر۔ زیادہ دور کی بات نہیں یہ دنیا دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک لمبے عرصے تک دو متحارب سیاسی کیمپوں میں تقسیم رہی ایک کی قیادت امریکہ کر رہا تھا تو دوسرے کی سوویت یونین ایک کا ملٹری ونگ اگر نیٹو تھا تو دوسرے کا وارسا پیکٹ یہ یقینا امریکن سی آئی اے کی زبردست کامیابی تھی کہ اس نے ایک منظم سازش کے تحت سوویت یونین کا تیاپانچہ کیا جس کے نتیجے میں اس سے15ریاستیں جداہوگئیں جو پھر وسطی ایشیاہی ریاستیں کہلانے لگیں سویت یونین کا اسطرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا پیوٹن جیسے کئی روسیوں کیلئے ہضم کرنا بہت مشکل تھا چنانچہ ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ وہ روس کی سپر پاور کی حیثیت بحال کرنے کیلئے میدان عمل میں اترے انہوں نے سب سے پہلے تو یہ فیصلہ کیا کہ اگر انہوں نے امریکہ سے موثر انداز میں بدلا لینا ہے تو ان کو چین کے ساتھ بنا کر رکھنی ہوگی چین کی قیادت کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو گیا تھا کہ روس کے ساتھ قدم ملا کر چلنے سے وہ امریکہ کے سیاسی عزائم کا زیادہ بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ روس اور امریکہ کا اس طرح سے آ پس میں شیروشکر ہو جانا امریکہ کیلئے سوہان روح سے کم نہیں ہے اور وہ اس اشتراک کو توڑنے میں تن من کی بازی لگا رہا ہے۔ اس طرح ایک اور سر د جنگ کا آغاز ہوگیا ہے جس میں مسلم دنیا کو اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے اس طرح کی پالیسی اپنانی ہے کہ جہاں وہ اپنے مفادات کا تحفظ کریں تو وہ کسی عالمی طاقت کا آلہ کاربھی نہ بنے۔اس ضمن میں امریکہ اور روس کی بجائے مسلم دنیا کو چین کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جو کسی ملک کے وسائل کا استحصال کرنے کی بجائے وہاں پر تجارت و معیشت کو مضبوط کرنے کے ذریعے تعلقات کو استوار کرتا ہے اور یہی مسلم دنیا کے مفاد میں ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کسی بھی ملک کو اپنا دست نگر رکھنے میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے اور اس کو خودکفیل نہیں ہونے دیتا تاکہ وہ امریکی امداد کا محتاج رہے۔ امریکہ کا یہ رویہ آزمودہ ہے جس سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ