تحفظ ماحول: معاشی نظریہ

ماحولیاتی آلودگی سے متعلق عالمی رپورٹ (ایمیشنز گیپ رپورٹ 2021ء) کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں کمی لانے اور مضر ماحول گیسوں کے اخراج سے متعلق کئے جانے والے اقدامات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے اور خطرہ ہے کہ تحفظ ماحول میں ناکامی کی وجہ سے کرہئ ارض کے مجموعی درجہئ حرارت میں رواں صدی کے آخر تک 2.7درجہ سنٹی گریڈ کا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ پیرس کے عالمی موسمیاتی معاہدے کے اہداف سے بہت زیادہ بلند ہے اور ایسا ہوا تو یہ کرہئ ارض کی آب و ہوا میں تباہ کن تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔ ذہن نشین رہے کہ رواں صدی میں ’گلوبل وارمنگ‘ کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کیلئے مذکورہ پیرس معاہدہ (عہد) کیا گیا کہ آئندہ آٹھ برس کے دوران مضر ماحول (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کو نصف کیا جائے۔ اگر مؤثر طریقے سے پیرس معاہدے کو لاگو کیا جائے تو ایسا ممکن ہے اور یہ انسانی تاریخ کا کامیاب ماحول دوست اتحاد ثابت ہو سکتا ہے جس میں میں کرہئ ارض کے درجہئ حرارت کو 2.2 ڈگری سنٹی گریڈ کم کیا جا سکتا ہیں جو کہ پیرس معاہدے کا ہدف ہے کہ عالمی درجہ حرارت دو ڈگری سنٹی گریڈ ہونا چاہئے تاہم سال دوہزارتیس تک کیلئے بنائے گئے منصوبے اِس حکمت عملی کے حصول کی راہ میں حائل ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ کھلی فضا میں جلایا جانے والا ایندھن‘ فضلہ اور زراعت کے شعبوں سے میتھین گیس کے اخراج میں کمی لانے سے نمایاں فرق پیدا کیا جا سکتا ہے اور قلیل مدت میں کرہئ ارض کی حدت کو کم کرنے میں اِن اقدامات سے مدد مل سکتی ہے۔عالمی رپورٹ میں بتایا گیا ہے ”موسمیاتی تبدیلی اب مستقبل کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ حال کا مسئلہ ہے۔“ اِس بات کی جانب اقوام متحدہ کی جانب سے بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ ماحولیاتی درجہئ حرارت میں اضافے اور اِس میں کمی کی کوششوں کی ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ عزم سے کاروائی کی ضرورت ہے۔ ماضی میں سمجھا جاتا تھا کہ تحفظ ماحول اور ماحولیات صرف ترقی یافتہ ممالک کا مسئلہ ہے لیکن آج جبکہ پاکستان کے مرکزی شہروں کی آب و ہوا اِس حد تک آلودہ ہو چکی ہے کہ وہاں سانس لینا صحت مند زندگی کا معمول نہیں رہا اور فضائی آلودگی کے سبب تعلیمی ادارے ہفتے میں تین دن بند کرنا پڑے ہیں تو اب یقینا ماحولیاتی تحفظ کا مسئلہ زیادہ سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ حقیقی معیشت میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بڑا عمل دخل ہے اور اگر کسی ملک نے معاشی طور پر ترقی کرنی ہے تو اُسے اپنے ہاں ماحولیاتی تحفظ و ترقی کو قومی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ عالمی سطح پر پیش کیا جانے والے اِس معاشی نظریئے کے بارے میں یقینا پاکستان کے فیصلہ سازوں کو دھیان دینا چاہئے کہ ماحول کی بہتری کا تعلق غذائی تحفظ سے ہے اور جب کسی ملک میں غذائی تحفظ بڑھتا ہے تو وہاں اجناس کی قیمتیں کم ہوتی ہیں۔ گلوبل وارمنگ کو ڈیڑھ درجے سنٹی گریڈ تک محدود کرنے کے دنیا کے پاس آٹھ سال کا وقت (مہلت) ہے اور اِس سال دوہزارتیس تک دنیا کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ (مضر ماحول) گیس کے اخراج میں کمی لانی ہے جو تینتیس گیگاٹن تک پہنچنے کی توقع ہے۔ جب دیگر تمام گرین ہاؤس گیسوں کو مدنظر رکھا جائے تو سالانہ اخراج ساٹھ گیگاٹن کے قریب ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کرہئ ارض کا درجہئ حرارت ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ کم کرنے کا ہدف صرف اِسی صورت حاصل ہو سکتا ہے جبکہ ’گرین ہاؤس گیسیز‘ کا اخراج نصف کر دیا جائے۔ دنیا نے صنعتی ترقی میں سرمایہ کاری کی اور اب یہی صنعتیں ماحول کیلئے خطرے کی وجہ سے ترقی کے تصورات کو دھندلا رہی ہیں۔ یہ وقت صارفین کی ماحول سے متعلق خواندگی کا بھی ہے جو آرام یا آسائش کیلئے ایسے آلات کا استعمال کم سے کم کر کے تحفظ ماحول کی عالمی کوششوں کا حصہ بن سکتے ہیں‘ جو مضر ماحول گیسیں خارج کرتی ہیں۔ اِنسان کی بقا خطرے سے دوچار ہے۔ یہ خطرہ معمولی نہیں بلکہ انتہائی سنگین و شدید ہے اور دانشمندی اِسی میں ہے کہ تحفظ ماحول کی کوششیں صرف آج کی ضرورت اور آج کے نکتہئ نظر سے نہیں بلکہ مستقبل کی ضرورت اور آنے والے کل کے نکتہئ نظر سے کی جائے۔