قصہ خوانی کا گوشہ ادب 

پرو فیسر صاحب اپنی الما ری سے جو کتاب نکا لتے ہیں اس پر گوشہ ادب کی مہر لگی ہوتی ہے۔ ایک دن طا لب علموں نے پو چھا سر! قصہ خوانی میں اس نا م کا کوئی سائن بورڈ نہیں ملتا پرو فیسر نے کہا یہ سائن بورڈ نہیں صرف مہر ہے اور مہر لگانے والا ممتاز عسکری تھا اس کے نا م کا بھی کوئی سائن بورڈ نہیں ملے گا یہ ایسی کہا نی ہے جس کو سمیٹ لیجئے تو دو جملوں میں آتی ہے اور پھیلا ئیے تو ہزار داستان ہے۔ شبقدر چارسدہ سے بختیار احمد مر حوم 1910ء میں پشاور آکر بس گئے کتا بوں کی دیدہ زیب جلد بندی سے کاروبار شروع کیا۔اس کے بعد کتا بوں کے تاجر بن گئے۔کتا بوں سے رشتہ جوڑ نے کے ساتھ ساتھ برصغیر کی خا کسار تحریک سے بھی رشتہ جوڑ لیا۔ علا مہ عنا یت اللہ مشرقی کے مرید، مداح اور سپاہی بن گئے خا کسار کی خا کی وردی اور خا کسار کا بیلچہ ان کے دو نشان بن گئے علامہ مشرقی کی کتاب تذکرہ انہوں نے گویا گھول کر پی لیا صراط مستقیم کو زند گی بھر کیلئے اپنا یا۔ خاکسار کا رسا لہ الا صلا ح لا ہور سے ان کے نا م آتا تھا۔ صفدر سلیمی اس کے مدیر اعلیٰ تھے 1957ء میں اپنی وفات تک صفدر سلیمی سے بھی تعلق قائم رکھا۔ان کے تین بیٹے ہوئے نیاز احمد، اقبال احمد اور ممتاز احمد، نیاز صاحب سیرو سیا حت کے دلدادہ تھے پوری دنیا گھوم آئے اقبال احمد نے ”مصاحب شہ“ کا پیشہ اختیار کیا سول سروس کے آفیسر بنے جبکہ ممتاز احمد نے عسکری کا تخلص اپنا یا بختیار سنز کے نا م سے باپ کے کاروبار کو سنبھا لا مگر اس انداز اور اسلو ب سے کاروبارکیا کہ اس کو کاروبار سے زیادہ شوق‘ ذوق‘ سلوک، محبت اور الفت و مو دت کا ذریعہ بنا یا۔ گو شۂ ادب ان کی دکا ن کا وہ گو شہ تھا جہاں امیر خسرو اور میر انیس سے لیکر پر وین شا کر اور جون ایلیا تک بر صغیر کے نا مور ادیبوں اور شاعروں کی شہکار کتا بیں رکھی جا تی تھیں مجھے ڈاکٹر سید امجد حسین‘ڈاکٹر ظہور احمد اعوان‘پروفیسر خا طر غزنوی، رضا ہمدانی اور فارغ بخا ری کی کتابیں گو شۂ ادب ہی سے ہاتھ آگئیں استاد بشیر اور شعیب خا ن سے میری واقفیت کا ذریعہ بھی گوشہ ادب ہی تھا، شعیب خا ن نے میرے کالموں کا مجمو عہ پرواز شائع کیا تو گوشہ ادب کی وساطت سے مجھ تک پہنچا یا۔ ممتاز عسکری اپنی ذات میں انجمن تھے آدھ گھنٹہ ان کے شوروم میں بیٹھنے والا شہر کے بیسیوں ادیبوں‘شاعروں اور دانشوروں سے ملا قات کا شرف حا صل کرتا تھا آپ خو د بھی بڑے پا یے کے مفکر اور دانشور تھے جب لکھتے تھے تو مختصر جملوں میں بڑی بڑی با تیں لکھ ڈالتے تھے زاہد حسین انجم کے نا م لکھے گئے خط میں کئی بڑی باتیں آسان اسلوب میں لکھی ہوئی ہیں مثلاً اپنے دیس میں غریب بھیک ما نگتا ہے‘ متوسط طبقہ قرض ما نگتا ہے اور امیر مزید مانگتا ہے اسکے بعد لکھتے ہیں اپنے دیس میں رہنے کیلئے امیر ہو نا اتنا ہی ضروری ہے جتنا پردیس میں رہنے کیلئے پا سپورٹ پر ویزہ لگنا لا زمی ہو تا ہے خط کا اخری جملہ دریا کو لا کر ایک کوزے میں ڈال دیتا ہے ”اب جدید طرز کی رہائشی بستیوں میں نما ئشی مکین اجتما عی طور پر انفرادی زندگی گذار تے ہیں“ ایک مختصر خط میں پا نچ بڑی حقیقتیں سما گئی ہیں خیبر پختونخوا کے جواں مر گ شاعر غلا م محمد قاصر کی وفات کے روز آپ نے ایک جملہ لکھ کر اپنی میز پر شیشے کے نیچے رکھ دیا جملہ یہ ہے ”خوشبو جب اپنے حسن کا اظہار نہیں کر پا تی تو بکھر جا تی ہے غلام محمد قاصر بھی خو شبو سے کم نہ تھے جب اظہار ذات میں اطمینان نہ ملا تو خو شبو کی طرح حسین یادیں چمن کو دے کر خود بکھر گئے‘ قصہ خوا نی کا گوشہ ادب ممتاز عسکری مر حوم کا نادر و نا یاب گو شہ تھا۔