مربوط حقائق

مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مربوط ہیں۔ جب بھی پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو ساتھ ہی دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں اور ساتھ ہی عالمی ضروریات کے مطابق تیل کی مقدار بھی کم ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب عالمی سطح پر کساد بازاری کا سامنا ہے اور عالمی معیشت پر دباؤ ہے، وطن عزیز کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے  عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض  کا حصول نا گزیر ہوگیا تھا، تاہم اس قرض کے ضمنی اثرات میں مہنگائی بڑھنے کا خدشہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔آئی ایم ایف کی  شرائط میں شامل ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس (لیوی) میں ماہانہ چار روپے اضافہ سمیت آمدنی بڑھانے کیلئے دیگر اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ جبکہ آئی ایم ایف معاہدے کی بنیاد پر جنرل سیلز ٹیکس پر دیا گیا استثنیٰ بھی ختم کرنا ہوگا اور بجلی کے نرخ بڑھانے پڑیں گے تو یقینی امر ہے کہ ناروا مہنگائی کی بدولت جان کنی کی کیفیت میں مبتلا غریب عوام کے دلوں پر اِن ا قدامات کے باعث قیامت گزر رہی ہے۔آئی ایم ایف شرائط کے تحت بجلی کے نرخوں میں اضافے کا تسلسل برقرار رکھنا بھی حکومت کی مجبوری بن چکا ہے جبکہ نئے اعلانات سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری سے دوچار عام آدمی کیلئے آنے والے دن زیادہ مشکلات بھرے ہوں گے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے لئے ان کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں ملک کے خوشحال طبقات کیلئے بھی ناقابل برداشت مہنگائی کے باعث حکمران پی ٹی آئی کا آئندہ عام انتخابات میں عوام کے پاس جانا کتنا مشکل ہو جائے گااس کا احساس ابھی سے کرنا چاہئے۔۔ عام آدمی (ہم عوام) کے لئے جان لیوا اعلانات کی بنیاد پر تو پٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخ بھی بتدریج بڑھیں گے اور صارفین کے لئے بجلی پر جو تھوڑی بہت سبسڈی باقی تھی وہ بھی چھین لی جائے گی جبکہ دو سو تک یونٹ استعمال کرنے والے صارفین بھی اب بجلی کے نرخوں کا نیا بوجھ برداشت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اگر حکومت کی جانب سے تسلسل کے ساتھ پٹرولیم اوربجلی کے نرخ بڑھائے جائیں گے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ضروریات زندگی کے زمرے میں آنے والی دیگر اشیا کے نرخ کس انتہا تک پہنچیں گے۔ عوام جان بچانے والی ادویات کی گرانی‘ گیس کی کمیابی اور مہنگائی کی آڑ میں ادویہ ساز اداروں اور گیس مافیا کی جانب سے مقرر کئے جانے والے من مانے نرخوں کے سامنے عملاً نڈھال ہو چکے ہیں یہ صورتحال ملک میں گورننس کے معاملہ میں کسی اچھے تاثر کا باعث بنتی تو ہرگز نظر نہیں آرہی جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں تو حکومت کے لئے طوفان اٹھانے کے لئے ایسے ہی موقع کی منتظر ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر ماہ (قبل از وقت) اضافے کا اعلان کر کے پیٹرول پمپ مالکان کو موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ پیٹرول ذخیرہ زیادہ منافع کیلئے بچا کر رکھیں۔ پیٹرول فروخت کرنے والوں نے پہلے ہی اپنے کمیشن میں سو فیصد اضافہ کرکے بوجھ صارفین پر ڈال دیا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کیلئے عوام کو مطمئن کرنا انتہائی دشوار نظر آتا ہے۔ حکومت کو اب عوام کیلئے بڑے ریلیف کی خاطر ملازمین کی تنخواہوں میں خاطرخواہ اضافہ اور ذرائع آمدن میں وسعت پیدا کرنا ہوگی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مہنگائی کا طوفان محض پاکستان میں نہیں بلکہ امریکہ بھی ان دنوں شدید مہنگائی کی لہر کی زد میں ہے اور وہاں پر بھی تیل کی قیمتیں گزشتہ تیس سال کے دوران سب سے بلند سطح پر ہیں۔ ایک طرف اوپیک ممالک تیل کی مارکیٹ میں اضافہ تیل لانے سے گریز کر رہے ہیں اور ان کاموقف ہے کہ کورونا وبا کے دوران تیل کی قیمتوں میں انتہائی درجے کی کمی سے ان کو جو نقصان ہواہے اس کا ازالہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تیل کی قیمت میں اضافہ ہو۔