وہاں گلی میں ایک شخص بیلچے سے گند نکال نکال کر نالی کے باہر رکھ رہا تھا۔ وہیں ایک اور رہائش رکھنے والا اسے ٹوک رہا تھا۔ وہ صفائی کرنے والے سے ناحق الجھ رہاتھا۔مجھے بہت حیرانی ہورہی تھی کہ ایک شہری اتنی خدمت کا کام سر انجام دے رہا تھا۔پھر اس کو روکنے ٹوکنے کی کیا بات ہے۔یہاں نہ رکھو وہاں نہ رکھو۔گند ڈالتے بھی تو وہی لوگ ہیں جو اس وقت روک ٹوک رہے تھے۔ ہم اگر اتنے اچھے ہو جائیں تو گند ہی نہ ڈالیں۔ یہ تو ہمارا خود کا کیا دھرا ہے۔اگر مفت میں کوئی ایک آدمی کھڑے ہوکر ہاتھوں میں ڈنڈے لئے خدمت کرتا پڑا ہے تو اس کی راہ میں اس طرح کانٹے بچھانا کیا معنی رکھتا ہے۔نالیاں کوڑے کرکٹ سے بھری ہیں اور بند ہیں اگر کسی نے اوزار اٹھا کر نالیا ں کھولنے کو کوشش رواں رکھی ہے تو اس کو اس طرح دبانے اور دھمکانے سے کیا حاصل ہوگا۔ کل وہی آدمی گند اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔پھر وہ اپنے اس ارادے سے باز آ جائے گا۔ وہ گند نہیں نکالے گا۔ سو نالیوں کا گند نالی ہی میں امانی پڑا رہے گا۔یوں اگر گند باہر نہ آیا تو پھراس کے نتیجے میں نالی کا پانی ابل کر باہر آئے گا۔جویہاں سے سینکڑوں گذرنے والو ں کے کپڑوں کو گندا کرے گا۔چھینٹ پہ چھینٹ اڑے گی۔ماحول کی خرابی جنم لے گی۔ وہاں مسئلہ یہ نہ تھا کہ وہ گند کو رضاکارانہ طور پر کیوں نکال رہا ہے۔ وہاں تو اس کو منع کرنے سے مراد یہ تھا کہ نکال ہمارے گھر کے باہر والے نالی کے کنارے پرکیوں ڈھیر لگا رہے ہو۔وہ اگر اتنی محنت کررہا ہے اور پھر بغیر معاوضہ کے یہ نوکری کرنے لگا تو اس کو روکنا درست نہیں۔نالی سے گند نکال رہے ہو مگر ا س جگہ سے مت نکالو ذرا دورہوکر ہمارے دروازے سے پرے نکال کر گراؤ۔ اب وہ گند نکالے پھر وہا ں سے گند اٹھا کر دور کہیں گرانے کو ہتھ گاڑی کا بندوبست بھی کرے۔کڑی سے کڑی مل کر زنجیر بناتی ہے۔اگر ایک نے نکالا تو اس گلی کا دوسرا تیسرارہائش کنندہ گند کو اٹھانے کا انتظام کرے۔ ایک پایے والی ہتھ گاڑی کابندوبست ہو۔ وہاں سے گند کو اٹھا اٹھا کر کہیں اور منتقل کرے۔وہا ں ایک دو آدمیوں کے مکانات تو نہیں ہیں۔ یہاں تو بیسیوں او ردرجنوں اور دسیوں لوگوں کا رین بسیرا ہے۔ان کو چاہئے کہ اس علاقے کی ایک کمیٹی بنائیں اور صفائی کے کام کیلئے ٹیمیں تشکیل دیں ان کی ڈیوٹیاں لگائی جائیں۔ پھرہر آدمی اس میں دلچسپی سے کام کرے۔اگر ہر گلی محلے میں اس طرح ہو تو پھر کیا ہے۔پورے کا پورا شہر چٹکیوں میں صاف ستھرا ہو جائے۔ حتیٰ کہ سرکاری عملے کو تکلیف ہی نہ ہو۔ وہ اپنی بڑی گاڑیاں لے کر نہ آئیں اور بھل صفائی مہم کا آغاز ہی نہ کریں یہ تو شعور کی بات ہے۔سمجھ بوجھ ہونی چاہئے۔سب سے پہلے تو یہ کہ ہم لوگ گند ہی کیوں ڈالیں۔کیوں نہ شاپروں میں ڈا ل کر گھر کے باہر کہیں فارغ مقام پر دھکیل آئیں۔ مگر ایسا تو ہوتا نہیں۔ہم گند کیوں ڈالیں کی بات نہیں۔ہم گند کیوں نہ ڈالیں۔۔اصل میں جب تلک ہماری قوم میں اپنی مدد خود کرنے کاجذبہ پیدا نہ ہو جب تک ہم یہ نہ سوچیں کہ گند ڈالنے سے خود ہماری گلی گندی ہو گی او رجب ہمارے گلی کوچوں میں گند ہوگا تووہی گند دوبارہ سے ہمارے پاؤں کے ساتھ رگڑکھاتا ہوا ہماری دہلیزوں کے راستے ہمارے صحنو ں میں از سرِ نو داخل ہو جائے گا۔اگر ہر گلی کوچے میں یہ منظر ہو تو ہمارا پورے کا پورا شہر گندا مگندا ہوگا۔ اس کو کہ جس کو پھولوں کاشہر کہا جاتاہے۔ مگر کبھی کہاجاتا تھا۔ یہ سینکڑوں سالوں پہلے کی باتیں ہیں۔ پھولوں کا شہر اب نہیں کہاجاتا۔ اب تو اس کو پرانی یاداشت کے کارن اگر پھولوں کا شہر کہیں تو درست نہ ہوگا۔اب تو یہ کوڑے کے ڈھیروں والا شہر ہے۔اسی گند کی زیادتی میں توپولیو کے جراثیم جنم لیتے ہیں اور پھلتے پھولتے ہیں او رپھر مکھی مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔ پھر ڈینگی کے مچھروں کو بھی صاف ستھرے پانی پر حملہ آور ہونے کاموقع ملتا ہے۔پھر ہسپتالوں کی رونقیں خوب بڑھتی ہیں۔کوئی نیا مریض ہے تو کسی کو وہاں وارڈ میں داخل کر دیا گیا ہے۔پھرکوئی گھرکو شفٹ ہو رہا ہے۔ وہاں گھر میں اوندھے منہ چارپائی پر بے سدھ پڑ ا ہے۔صرف ڈینگی بخار تو نہیں اس کے بعد کمزوری بھی تو آ جاتی ہے۔بندہ کسی کام کا نہیں رہتا۔بچ جائے تو بیماری کے بستر سے اٹھتے اٹھتے اس کو اور بھی دن لگ جائیں گے۔اگر کوئی ایسے میں ازراہِ ہمدردی کسی گلی میں سے گند اٹھا تا ہے تو اس کو تو الٹا شاباشی دینا چاہئے۔اس کی عز ت کرنا مقصود ہے۔اس کی حوصلہ افزائی ہو اس کو داد ملے تاکہ اس کو احساس ہو کہ میں جو اچھاکام کررہاہوں تو میں اکیلا نہیں ہوں میرے ساتھ دیگر مقامی رہائشیوں کا آشیر باد بھی شامل ہے۔ جس کی وجہ سے اس آدمی کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔