منشیات سمگلنگ کیس، مصر میں بحری جہاز کے پاکستانی عملے کو سزائے موت کا سامنا

کراچی: مصر میں منشیات سمگلنگ کیس میں بحری جہاز کے پاکستانی عملے کو سزائے موت کا سامنا ہے۔

 مصری حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ جہاز سے 2 ٹن ہیروئن اور99 کلو آئس برآمد ہوئی ہے جو مصر کی تاریخ میں پکڑی جانے والی منشیات کی سب سے بڑی کھیپ ہے۔

 بی بی سی کے مطابق راحیل حنیف کو رواں برس مصر میں بحری جہاز کے ذریعے سے منشیات سمگل کرنے کے الزام میں دیگر چھ ساتھیوں سمیت سزائے موت سنائی گئی ہے۔

راحیل حنیف اور ان کے چھ ساتھیوں کو مصر کے حکام نے 2017 میں گرفتار کیا تھا۔ ان میں ایک پاکستانی نڑاد ایرانی اور دیگر پاکستانی شہری ہیں۔

راحیل حنیف کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ شوہر کے جانے کے دو ہفتے بعد بیٹا پیدا ہوا جس نے ابھی تک باپ کا چہرہ بھی نہیں د یکھا‘ انعم پوچھتی ہیں کہ راحیل منشیات کی سمگلنگ میں کیسے ملوث ہو سکتے ہیں؟ ’میں یہ کیسے یقین کر لوں، کیونکہ وہ پہلی مرتبہ جہاز پر گئے تھے۔ 

اس کے لیے انھوں نے ایجنٹ کو ڈھائی لاکھ روپے ادا کیے تھے۔ ان کی تنخواہ کوئی چالیس ہزار پاکستانی روپے بنتی تھی اور ان کا کام جہاز پر صفائی ستھرائی کرنا تھا۔‘

 مصر میں سزائے موت پانے والی پاکستانیوں کے کیس میں پاکستانیوں کے جس مصری وکیل کی خدمات پاکستانی سفارت خانے نے حاصل کی ہیں، اْن کی معاونت بین الاقوامی بحری قوانین کے ماہر نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ چھ پاکستانیوں میں سے چار پہلی مرتبہ بحری جہاز پر گئے تھے۔ یہ چاروں پاکستانی بحری جہاز پر ویٹر، صفائی ستھرائی اور پینٹ کے کام سے منسلک تھے۔ یہ سب غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایک کپتان اور ایک انجینئر ہیں، جن میں کپتان کی عمر قریباً 70 سال ہے۔

 مصر میں سزائے موت پانے والے ایک اور پاکستانی محمد عاطف کے بھائی محمد رمیز کا کہنا تھا کہ ’جب سے بھائی کو سزا سنائی گئی ہے اس وقت سے ہمارے گھر میں کوئی ڈھنگ کا کھانا نہیں بنا ہے۔ امی اور ابو صرف بھائی کو یاد کرتے ہیں۔ اب تو بھائی سے بات بھی نہیں ہوتی۔