نیک نیتی

افغانستان محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہے۔ ایک طرف پاکستان قیام امن کے لئے کوششیں کررہا ہے تو دوسری جانب کئی ممالک افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور اپنے حریفوں کو اس معاملے میں پچھاڑنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے خلیجی حریف قطر کے مقابلے میں کابل میں واقع حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈا چلانے کیلئے طالبان کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ اماراتی حکام نے حالیہ ہفتوں میں طالبان کے ساتھ کئی بار مذاکرات کئے تاکہ مذکورہ ہوائی اڈے کو چلانے پر تبادلہئ خیال کیا جا سکے۔اگست میں ہونے والے امریکی انخلأ کے بعد سے قطر اور ترکی مل کر یہ ہوائی اڈا چلارہے ہیں اور قطر کا کہنا ہے کہ وہ اکیلا ہوائی اڈے کے معاملات کو سنبھالنے کیلئے تیار ہے لیکن طالبان نے ابھی تک قطر کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ امریکی انخلأ سے پہلے تک مذکورہ ہوائی اڈے کا اختیار متحدہ عرب امارات کے پاس تھا۔ ہوائی اڈے کا اختیار حاصل کرنے کا اصل مقصد اس حوالے سے انٹلی جنس معلومات اکٹھی کرنا ہے کہ کون افغانستان میں آرہا ہے اور کون وہاں سے جارہا ہے۔افغانستان کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت مختلف ممالک مل کر اس کے معاملات میں سدھار پیدا کرنے کیلئے مدد اور تعاون کریں۔ پاکستان اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے جس کا اعتراف امریکہ سمیت کئی ممالک کرتے ہیں۔ لائق توجہ ہے کہ افغانستان میں انسانی المیے کو پیدا ہونے سے روکنے کیلئے پاکستان ہر طرح سے مدد کررہا ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان نے بھارت کو واہگہ کے راستے گندم اور ادویات افغانستان بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کو اس وقت جس بحرانی کیفیت کا سامنا ہے وہ امریکہ اور اس کے  اتحادیوں کی پیدا کردہ ہے لہٰذا اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر افغانستان کی ہر ممکن مدد کریں کیونکہ وہاں امن و استحکام قائم نہ ہونے سے صرف اس خطے کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا امن و امان بگڑ سکتا ہے لیکن امریکہ اور اِس کے اتحادیوں نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کو اگر کچھ دے سکتے ہیں تو صرف جنگ اور عدم استحکام ہے۔ امریکی و اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلأ کو تین ماہ مکمل ہونے والے ہیں لیکن افغانستان میں ابھی تک باضابطہ حکومت قائم نہیں ہوسکی اور اس کے حالات ایسے ہیں کہ اگر بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں نے آگے بڑھ کر معاملات کو سنبھالنے کیلئے طالبان کا ساتھ نہ دیا تو وہاں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اب تک کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کے سامنے مختلف طرح کی شرائط رکھی جارہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اگر وہ شرائط پر عمل درآمد کریں گے تو ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق تمام شرائط کو طالبان تسلیم بھی کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کراچکے ہیں لیکن تاحال بین الاقوامی برادری کی طرف سے کوئی ایسا مؤقف سامنے نہیں آیا جس سے واضح ہوتا ہو کہ کب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے راہ ہموار کی جائے گی۔ طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کرانے اور افغانستان میں امن و استحکام کیلئے کوششیں کررہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ مختلف ممالک سے رابطے میں بھی ہیں۔ اسی حوالے سے افغانستان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا نیا مرحلہ آئندہ ہفتے قطر میں ہورہا ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ دوحا مذاکرات میں امریکہ کے ساتھ سیاسی تعلقات‘ اقتصادی مسائل کے حل اور دوحا کے سالانہ معاہدے کی شرائط کے نفاذ پر بات ہوگی۔ پاکستان عالمی اور علاقائی سطح پر برطانیہ کے کردارکو اہمیت دے رہا ہے کیونکہ صرف عالمی توجہ ہی سے ممکن ہے کہ افغانستان میں سر اُٹھانے والے انسانی بحران کو روکا جا سکے۔ پاکستان کے مؤقف اور کوششوں کی دنیا معترف ہے جو افغان صورتحال میں پاکستان کے کردارکی تعریف کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ اور علاقائی استحکام کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا رہی ہے اور اُمید کی جا سکتی ہے کہ اِن کوششوں کی کامیابی کے نتیجے میں جلد افغانستان استحکام کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔