یوکرائن اور حبشہ کے حالات بدستور خراب ہیں بلکہ وہ دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں تائیوان میں بھی لاوا پک رہا کوئی دن جاتاہے کہ وہ اچانک پھٹ پڑے سوویت یونین کا جب شیرازہ بکھرا تو دنیا کے کئی سیاسی مبصرین کا یہ خیال تھا اب چونکہ دنیا یونی پولرunipolar ہوگئی ہے اور میدان میں صرف امریکہ ہی سپرپاور رہ گیا ہے لہذا شاید اب وہ خلفشار ختم ہوجائے جو نیٹو اور وارسا کے عسکری معاہدوں کی وجہ سے نیٹو کے ممبران ممالک اور وارسا پیکٹ کے ممبران ملک کے درمیان دوسری جنگ عظیم کے بعد سے چلا آ رہا تھا پر کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ سوویت یونین کے اندر پیوٹن جیسے کئی سیاسی رہنما اپنے وطن کے ایوان اقتدار میں اتنا زور پکڑ جائیں گے کہ وہ امریکہ سے بدلہ لینے کیلئے روس کو دوبارہ سپر پاور کی حیثیت دلانے میں بھرپور کردار ادا کرنا شروع کر دیں گے اسی طرح دنیا کے سیاسی مبصرین کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں چین دنیا میں ایک بہت بڑی معاشی اور عسکری قوت کے طور پر ابھرے گا جس سے امریکہ اور مغربی ممالک کے رہنماں کے پسینے چھوٹ جائیں گے کسی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ روس اور چین کہ جو ماضی میں آپس میں اتنے قریب نہ تھے آپس میں شیر و شکر ہو جائیں گے آج کل امریکی بلاک اور مشرقی بلاک کہ جس کی قیادت روس اور چین کر رہے ہیں کے درمیان جو جنگ لڑی جاری ہے اسے ہم ففتھ جنریشن وار فیئر کہہ سکتے ہیں اور یہ اجرتی قاتلوں کے ذریعے لڑی جا رہی ہے یا لڑی جائے گی کہ جن کو دور حاضر کی سیاسی زبان میں ڈیفنس کنٹریکٹرز کہتے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں امریکہ نے افغانستان میں انہی ڈیفنس کنٹریکٹرز کو استعمال کیا ہے جن کی تعداد اٹھارہ ہزار کے قریب پہنچ گئی تھی بلیک واٹرز جیسے ادارے بھی انہی اجرتی قاتلوں میں شامل ہیں۔ اس خبر میں یقینا کافی وزن ہے کہ عنقریب ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں چین کو نظرانداز کر کے امریکہ نے پاکستان کو سفارتی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ امریکی حکومت اگلے ماہ ایک عالمی سربراہی ورچوئل اجلاس کی میزبانی کر رہی ہے جس میں دنیا کے 110 ممالک کو مدعو کیا جائے گا جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں تاہم امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے مدعوین کی فہرست میں چین سمیت کئی اہم ممالک شامل نہیں ہیں۔ نہ صرف چین کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کے دشمن ملک تائیوان کو بطور خاص مدعو کیا گیا ہے۔ جس سے امریکہ اور چین کے درمیان موجودہ کشیدگی میں کافی اضافہ ہو گا۔ ہمارے لئے بھی یہ ایک سفارتی آزمائش کا وقت ہوگا امریکہ کی دوغلا پن پر مبنی پالیسی عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتا ہے کہ وہ صرف بیجنگ میں قائم حکومت کو چین کی نمائندہ حکومت سمجھتا ہے پر دوسری طرف وہ اسے نظر انداز کرکے اس کے ازلی دشمن تائیوان کو اس قسم کی میٹنگ میں بلاتا ہے۔ یہ اگر دوغلا پن نہیں تو پھر کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے اس بیان سے تو اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ قرضے سے چھٹکارے کیلئے برآمدات بڑھانا ہوں گی پر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کئی ایسی درآمدات بھی تو ہیں کہ جن پر پابندی لگا کر ہم ہر سال زرمبادلہ کی ایک کثیر رقم بجا سکتے ہیں۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ہم سر کے بال سے لے کر پاؤں کے انگوٹھے تک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دن بدن ڈوبے جا رہے ہیں تو آخر ان اشیائے تعیش کی درآمدات کی کیا ضرورت ہے کہ جن سے سے ہمارے ہر شہر کے بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز بھرے پڑے ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ