قرضوں کے مضمرات

پاکستان کی مالیاتی ذمہ داریوں (قرضہ جات) میں اِس حد تک اضافہ ہو گیا ہے کہ وزیراعظم کے بقول ”قرض‘ قومی سلامتی کا مسئلہ“ بن گئے ہیں کیونکہ پاکستان کے ذمے واجب الادأ ملکی (داخلی) اور خارجی (بیرونی) مجموعی قرضہ جات کا حجم ”پچاس ہزار ارب روپے“ سے تجاوز کر چکا ہے!جبکہ بیرونی قرضوں کا حجم ایک سو ستائیس ارب ڈالر سے زیادہ یعنی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے! یہ قرض عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسا کہ پیرس کلب اور ممالک یا پھر مقامی کمرشل بینکوں سے حاصل کئے گئے ہیں۔ پاکستان کی سالانہ آمدن و اخراجات (بجٹ) کے درمیان خسارہ (عدم توازن) پورا (درست) کرنے کیلئے ساٹھ فیصد انحصار مقامی قرضوں پر رہتا ہے جبکہ درآمدات اور برآمدات میں فرق (خسارے) کو کم کرنے کیلئے بیرونی قرضہ لیا جاتا ہے اور یہ عمل ہر حکومت کے دور میں کسی نہ کسی صورت جاری رہتا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ قرضوں کے نقصانات سے آگاہ ہونے کے باوجود‘ حکومتیں قرضوں پر انحصار کیوں کرتی ہیں؟ سال دوہزاراٹھارہ میں پاکستان کے ذمے قرضوں کا حجم چھ ہزار ارب روپے تھا جو پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بڑھ کر سولہ ہزار ارب روپے اور اِس کے بعد نواز لیگ کے دور کے خاتمے تک تیس ہزار ارب ہو گیا۔ حکومتیں قرض تو لیتی رہی ہیں لیکن اب پریشان ہیں کہ یہ قرضے کیسے ادا ہوں گے لیکن قرض دوہزاراُنیس میں تیس ہزار ارب سے ساٹھ ہزار ارب ہو چکا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آدھے سے زیادہ قرضوں کی وجہ آئی ایم ایف ہے۔ موجودہ حکومت آئی تو پہلے سال شرح سود کو ساڑھے چھ فیصد سے بڑھا کر تیرہ اعشاریہ پچیس فیصد کر دیا گیا اور شرح مبادلہ کو ایک سو اکیس سے ایک سو چھیاسٹھ کر دیا گیا اور صرف ان دو اقدامات نے قرضے میں 8873ارب روپے کا اضافہ کیا۔ دوسرے سال میں 3644ارب روپے کا اضافہ ہوا اور اب 3177ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے نوے کی دہائی کو پاکستان کیلئے گمشدہ دہائی قرار دیا تھا کہ جب ملک پر قرضے کا بوجھ پڑا تاہم 2008ء سے 2018ء کا درمیانی عرصہ بھی پاکستان کے لئے کھوئی ہوئی دہائی ہی ہے کہ جس میں قرضے کا بوجھ بڑھا اور پھر یہ سلسلہ موجودہ حکومت کے تین سال اور چند مہینوں میں بھی جاری رہا کیونکہ قرض لینا نسبتاً آسان ہوتا ہے اور قرض لیتے وقت اِس کی ادائیگی کے بارے میں سوچا نہیں جاتا۔ حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ قرضے گذشتہ حکومتوں کی جانب سے لئے گئے اور اب قرضوں کی سود سمیت ادائیگی مجبوراً کرنا پڑ رہی ہے لیکن معاشی ماہرین کے مطابق قرضوں کی واپسی کے علاؤہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لئے بھی قرضوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور مالیاتی بگاڑ کو درست کرنے کے لئے قرضے پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے تحریک ِانصاف کے حاصل کردہ بتیس ارب ڈالر سے زائد قرض میں سے سترہ ارب ڈالر پرانے قرضوں کی واپسی کے لئے ادا کئے اور اپنے اخراجات کے لئے چودہ سے پندرہ ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔ قرضوں پر انحصار اور اِسے معاشی مشکلات کا حل سمجھنے سے متعلق سوچ نے پاکستان کو اُس مقام تک پہنچا دیا ہے‘ جہاں قرضوں اور اِن پر سود کی ادائیگی کیلئے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے۔