افغان طالبان نے افغانستان پر قابض ہونے کے بعد جو پانچ وعدے کیے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ وہ افغانستان میں افیون کی کاشت پر پابندی لگائیں گے اور منشیات کی فیکٹریاں بند کروائیں گے۔ کیا وہ ایسا کرسکیں گے؟اگست کے وسط میں پریس کانفرنس کے دوران تب طالبان کے ترجمان اور اب”امارت اسلامی افغانستان“ کے وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا ہماری حکومت میں یہاں منشیات کی کاشت اور تجارت کی اجازت ہو گی نہ دوسرے ممالک میں غیر قانونی طریقے سے بھیجی جائے گی۔ ہمارے نوجوان نشے کی حالت میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہیں جس پر ہم دکھی ہیں۔ ہم افیون کی کاشت کا مکمل خاتمہ کر دیں گے۔ اگرچہ”امارت اسلامی افغانستان“ ملک میں منشیات کی کاشت اور تجارت پر پابندی لگانا چاہتی ہے مگر پچھلے دنوں ذبیح اللہ مجاہد نے بیان دیا”ہمارے لوگ معاشی بحران سے گزر رہے ہیں اور اس دوران لوگوں کو ان کی واحد ذریعہ آمدن سے محروم کرنا برا ہوگا مگر ہم متبادل فصلیں ڈھونڈنے کیلئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے“۔ پوست کی کاشت اور تجارت نے افغانستان میں 2019 میں تقریبا 120000 نوکریاں فراہم کیں۔ چنانچہ پوست کی کاشت روکنے اور متبادل فصلوں کی تلاش کیلئے عالمی برادری کو افغان حکومت کی مدد کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ممکن ہے افغان کسان اپنی غربت، کورونا وبا کے باعث کاروبار کی بندش اور بے روزگاری کی وجہ سے بڑی تعداد میں افیون کی کاشت پر مجبور ہوجائیں گے۔ طالبان کی جانب سے پوست کی کاشت پر ممکنہ پابندی کے بعد افیون کی قیمت 70 ڈالر فی کلو سے 200 ڈالر فی کلو ہوگئی ہے۔ اتنی اچھی قیمت بھی اس کی زیادہ کاشت کیلئے ایک اہم عامل ہوسکتی ہے مغربی ممالک کو خدشہ ہے طالبان دور میں افغانستان منشیات کا مرکز بن جائے گا مگر وہ بھول جاتے ہیں وہاں تو پوست کی کاشت عرصے سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق عالمی مارکیٹ کی اسی سے نوے فیصد اور یورپی مارکیٹ کی 95 فیصد ہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے مطابق افغانستان میں 2020 میں سوا دو لاکھ ہیکٹرز پر پوست کاشت کی گئی جبکہ اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں اقرار کیا تھا کہ طالبان دور میں افغانستان میں ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں پوست کی کاشت صفر پر آگئی تھی۔ طالبان حکومت میں 2001 میں پوست کا زیرکاشت رقبہ صرف آٹھ ہزار ہیکٹر تھا اور وہ ان علاقوں میں تھا جو مخالف جنگجو سرداروں کے زیر تسلط تھا۔ تواتر سے ایسا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ طالبان حکومت میں پوست کی کاشت بڑھ گئی ہے مگرذبیح اللہ مجاہد نے اس کی تردید کی۔ طالبان کی نظر میں منشیات کی کمائی حرام ہے اور ان کے پہلے دورِ حکومت میں بھی افغانستان میں پوست کی کاشت تقریبا ًختم اور ملک سے غیر قانونی منشیات کی برآمد رک گئی تھی۔ ابھی تک صرف طالبان دور حکومت میں افغانستان میں افیون کی کاشت تقریبا ختم ہوگئی تھی جس کی وجہ سے وہاں سے عالمی منڈی میں ہیروئین کی سپلائی تقریبا صفر پر آگئی تھی۔ پھر جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر قبضہ کیا تو پوست کی کاشت اور تجارت دوبارہ زور و شور سے شروع ہوگئی اگرچہ امریکہ نے اپنے بیس سالوں کے دوران منشیات کی پیداوار و تجارت مسدود کرنے، پوست کی فصلیں اور لیبارٹریاں تلف کرنے اور متبادل روزگار اور فصلیں دینے پر نو ارب ڈالر خرچ کیے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کہتے تھے وہ افغانستان میں بشمول دیگر مقاصد منشیات کی پیداوار ختم کرنے کیلئے آئے ہیں لیکن ہوا یوں کہ انہوں نے طالبان دشمنی میں منشیات فروش جنگجو سرداروں کی پشت پناہی اور ان کے علاقوں میں افیون سے چشم پوشی کی۔ چنانچہ طالبان کے دور میں اگر منشیات چھ صوبوں میں پیدا ہورہی تھی تو امریکی قبضے کے بعد یہ اٹھائیس تک پھیل گئی۔ روس کے خلاف افغان جنگ کے دوران بھی سی آئی اے افغانستان میں اپنے بعض مہنگے آپریشن چلانے کیلئے مبینہ طور پر ہیروئن کی کمائی استعمال کرتی تھی مگر امریکہ اہلکار اور ان کے افغان معاونین نے آنکھیں بند رکھیں۔ یہ سلسلہ گیارہ ستمبر کے بعد بھی جاری رہا۔ افغانستان میں بے روزگاری، غربت میں اضافہ، خوراک کی کمی، خشک سالی، داخلی ہجرت، کورونا وائرس اور حکومت کے پاس نقدی کی کمی فی الحال بڑے مسائل ہیں۔ایسے میں افیون کی کاشت پر پابندی کا اقدام مزید معاشی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے تاہم اگر افیون کی کاشت جاری رہتی ہے تو اس کے نتیجے میں عالمی پابندیاں بھگتنی پڑیں گی جو معاشی بدحالی کی وجہ سے ناقابل برداشت ہوں گی۔ تاہم طالبان نے اگر پوست کو ختم کرنے کا تہیہ کیا تو پوست کی کاشت جلد ختم ہوجائے گی کیوں کہ پچھلے دور کے برعکس اب طالبان کی عمل داری پورے افغانستان پر ہے اور اب ماضی کی طرح مخالف جنگجو سرداروں کے پاس علاقے نہیں جہاں وہ پوست کاشت اور ہیروئن تیار کرسکیں۔ہیلمند کے گورنر عبد الاحد نے برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا۔ کسان خشک سالی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ باغات اور فصلیں بری طرح متاثر ہیں۔ اگر عالمی برادری عوام، کسانوں اور حکومت کے مطالبات نہیں مانتی تو کسان پوست کی کاشت کی طرف چلے جائیں گے کیونکہ اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ دنیا کو ڈیم بنانے، تخم مہیا کرنے اور دیگر فصلیں اُگانے کیلئے کسانوں کی مدد کرنا ہوگی۔تو کیا دنیا کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ طالبان کے خلوص اور ذمہ دارانہ طرزعمل کو دیکھتے ہوئے ان کی مالی مدد کریں، امریکہ ان کے ضبط شدہ اثاثے بحال کرے، افغانستان میں سرمایہ کاری شروع کرے۔