آسانیاں اور دشوار زندگی

سہولتیں اتنی زیادہ ہیں کہ انسان کاہل اورسست ہو چکا ہے۔صاحب دفتر جاتے ہیں تو وہاں شام تک کرسی پر براجمان رہتے ہیں۔کھانا پینا بھی وہیں ہوتا ہے۔یہ ملک چین تو نہیں کہ وہاں دفتروں میں بھی دوپہر کے وقت اہل کاروں کو زبردستی آدھ گھنٹے کیلئے سونے کو کہا جاتا ہے۔ تاکہ ان کا دماغ ریفریش ہو جائے۔یہاں تو مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں دفتروں میں آرام ہو توکتنا اچھا ہو۔اس بہانے چلو تھوڑی سی تبدیلی محسوس ہو۔بندہ کہیں دو قدم چل لے گا۔ہمارے ہاں جب صاحب دفتر سے شام گئے واپس لوٹتے ہیں تو آفس کی عمارت سے نکلتے ہوئے ان کا پہلا قدم گاڑی میں پڑتا ہے۔ اس لئے عام طور سے چلنا پھرنا نہیں ہوتا۔پھر گھر پہنچ کر گاڑی سے قدم اترتا ہے۔اس کے بعد اتنی تھکن ہوتی ہے کہ صاحب کو آرام کرناہے۔سو جب گھنٹہ بھر سو کر اٹھتے ہیں تو سر ِ آسماں اندھیرے کا سائبان تن جاتا ہے۔پھر یہ سردیاں اور ٹھٹھرنا پھر بستر میں گھس جانا۔یہی روٹین ہے۔اگر چھٹی کے دن چلت پھرت ہو تو ہو ورنہ تو بچوں کو لیا اور گاڑی یا بائیک پر کہیں چکر کیلئے نکل گئے۔ سسرال یا قریب کے رشتہ دار کے گھر جادھمکے۔اگر دو چھٹیاں ہوں تو کیا بات ہے۔لیکن تعلیمی دفتروں میں تو ہفتہ کے دن بھی حاضری ہوتی ہے۔انسان بنیادی طور پر سست واقع ہوا ہے۔کاہلی اس کی ہڈیوں میں موجود ہے۔اس کا بس چلے تو دو قدم نہ اٹھائے۔ پڑا رہے سویا رہے۔یہ تو مجبوری ہے کہ کام کاج کو یا سودا سلف ڈھونے کو گلی کے باہر تک جنرل سٹور پر جانا پڑتا ہے۔روٹیاں لانا ہوتی ہیں۔دودھ بھی اٹھاکرشاپر میں ڈالنا ہے۔نت نئے کام ہوتے ہیں۔ورنہ تو بندہ گھر کے ایک کونے میں پڑا رہے۔وہ شعر مصحفی کایاد آیا کہ بندہ ایسا ہو جائے ”مصحفی گوشہ ئ عزلت کو سمجھ تخت شہی۔ کیا کرے گا تو عبث ملکِ سلیماں لے کر“۔مطلب گھر کے فراغت کے کونے کو بادشاہی کا تخت سمجھنا چاہئے۔کسی ملک کابادشاہ بن جانے سے زیادہ گھر کی بادشاہی اچھی ہے۔گھر میں ان دنوں دھوپ تلے بیٹھے اور قہوہ نوش کرے۔ پھر سورج کی روشنی کی تپش میں غنودگی طاری ہونے پر وہیں کاٹھ کی چارپائی پر اونگھ کرنیند کی آغوش میں چلا جائے۔میں کہوں کل کا انسان کیا کرے گا۔ وہ تو آج کی سہولیات سے زیادہ سہولت حاصل کر کے اور بھی نکما ہو جائے گا۔ بالکل اس شعر کی طرح ”حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے۔ اور ہوں گے تیری محفل سے ابھرنے والے“۔آنے والے زمانے میں تو انسان کمرے کا قیدی ہو کر رہ جائے گا۔ خواہ وہ کمرہ دفتر کا ہو یا اس کا ڈرائنگ روم ہو یا بیڈ روم ہو۔ پہلے تو یہ سہولیات نہ تھیں۔ پیدل چلنا زیادہ تھا۔ آج تو گاڑی ہے یا موٹر سائیکل پر سوار ی ہے۔ پہلے تو سترسال تک بھی کوئی بیماری قریب نہ پھٹکتی تھی۔ لوگ دور تک پیدل جاتے۔ جس سے ان کی صحت بھی درست رہتی تھی۔ آج کا انسان تو ان سہولتوں کی وجہ سے آرام طلبی کا اتناعادی ہو چکا ہے کہ بیماریو ں کا محبوب شکار بن چکا ہے۔مستقل میں ان سہولتوں کے زیادہ ہونے سے لوگ زیادہ سے زیادہ بیمار پڑیں گے اور جلد ہی ان کی دنیا سے چھٹی ہو جایا کرے گی۔پہلے تو جب سر کے بالو ں میں وقت کا مصور سفید برش پھیر کر تمام کے تمام سیاہ کینوس کو از سرِ نو سفید کر دیتا تھا تب بھی بوڑھے انسان کی نظر مشکل ہی سے کمزور ہو تی تھی۔مگر آج تو دو قدم چلنے کے بجائے موٹر بائیک کی سواری نے بھلے چنگے کی نظر کمزور کر دی ہے۔پھر بچوں تک کو عینک لگ گئی ہے۔وہ موبائل کی چکاچوند والی روشنی کو مسلسل تاکنے سے اپنی آنکھوں کی خرابی کو جیسے مول لے کر اپنا چکے ہیں۔جتنا جتنا سائنس ترقی کر رہی ہے۔اتنا ہی آدمی کا دماغ اور زیادہ کام کر رہا ہے۔مگر دوسری طرف بندہ کو جسمانی ترقی نہیں مل رہی۔ آدمی میز کرسی پر بیٹھ کر یا لیپ ٹاپ کو گود میں رکھے پھر موبائل کو ہاتھ میں تھا م کر کہیں رک کر یا کہیں بیٹھ کرزوال کی طرف جا تو رہا ہے مگر بہت تیزی کے ساتھ جاتا ہے۔ایک چیزفائدہ کی تو ہوتی ہے مگر اسی فائدہ مند چیز کے اندر ایک گونہ نقصان بھی موجودہوتا ہے۔