ڈیورنڈ لائن

 اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے ایک ایسا لق و دق چٹیل پہاڑی سلسلہ ہے کہ جو دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا واحد علاقہ ہے کہ جس میں پاکستان اور افغانستان دونوں کی حکومتوں کو اپنی اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے ہمیشہ از حد محنت درکار رہی ہے گو کہ ڈیورنڈ نامی ایک انجینئر نے اس وقت کے برٹش انڈیا اور افغانستان کی سرحد پر جگہ جگہ سابقہ فاٹا کے مختلف علاقوں میں برجیاں تو ضرور لگائیں پر سابقہ مہمند ایجنسی میں کئی مقامات ایسے بھی ہیں کہ جہاں وہ برجیاں لگانے نہ جاسکے اور صرف نقشے پر انہوں نے لائن کی مارکنگ کی پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ڈیورنڈ لائن کو اس وقت کے حکمرانوں نے نہ صرف ایک بلکہ دو مرتبہ تسلیم کیا ہے اس جملہ معترضہ کے بعد اس موضوع پر کچھ مزید وضاحت ہو جائے افغانستان میں چند ماہ قبل جب طالبان نے عنان حکومت سنبھالی تو انہوں نے حکومت پاکستان کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے کہ کسی طور بھی ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہو لگ یہ رہا ہے کہ تا دم تحریر وہ اپنے اس عزم کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے ہیں اور دہشت گرد اب بھی ڈیورینڈ لائن کو پھلانگ کر وطن عزیز میں داخل ہو رہے ہیں یہ درست ہے کہ ڈیورنڈ لائن کو موثر بنانے کیلئے اس پر باڑ لگا ئی گئی ہے اور ان اقدامات سے افغانستان کی سر زمین سے پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیاں کرنے والوں کی کافی حد تک حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہے‘ جو قوتیں افغانستان میں اشرف غنی اور ان کے ٹولے کی سرپرستی کر رہی تھیں وہ ان کی پسپائی پر اپنے زخم بھی چاٹ رہی ہیں‘ حکومت نے سابقہ فاٹامیں ایک نیا انتظامی میکینزم متعارف کر وا دیا ہے‘ پرانے نظام میں قبائل اپنے اپنے علاقے کے امن عامہ کی ذمہ داری اپنے سر پر لیتے تھے۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب فاٹا میں پرانا انتظامی نظام رائج تھا تو یہ دیکھنے کیلئے کہ جرائم کی شرح فاٹا میں زیادہ ہے یا علاقہ سرکار میں ایک سروے کے ذریعے ایک تقابلی جائزہ لیا گیا تھا اور یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ پورے شمالی وزیرستان میں سال بھر میں جتنے جرائم ہوہے تھے وہ ملحقہ بنوں کے ریونیو ڈسٹرکٹ کے صرف ایک تھانے کے صرف ایک روز میں ہونے والے جرائم سے کم تھے اب چونکہ گھڑی کی سوئی پیچھے نہیں کی جاسکتی ہمیں موجودہ نظام حکومت کے اندر رہ کرہی امن و عامہ کو مزید سدھارنا ہو گا اور اس کیلئے اپنے باڈرز پر اپنا کنٹرول مزید مضبوط کرنا ہوگا‘بھارت ہمارے سندھ پنجاب اور بلوچستان کے راستوں سے بھی پاکستان کے اندر تخریب کار بھیج رہاہے پاکستان میں داخل ہونے کے نظام کو ہمیں غیر ملکیوں کیلئے اتنا ہی سخت اور مشکل بنانا ہوگا کہ جتنا امریکہ یا یورپ کے کئی ملکوں نے بنا رکھا ہے۔