قوت ِخرید

عوام کی خوشحالی اور ملک کا استحکام دو الگ الگ باتیں نہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ یہ خوشحالی و استحکام کس قدر ہے‘ اِسے جانچنے کے لئے جو پیمانے استعمال ہوتا ہے اسے ”قوت ِخرید“ کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت خود حکومتی وزیر و مشیر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ چند برس میں اکثریتی عوام کی ”قوت ِخرید“ کم ہوئی ہے جس کی وجوہات میں فروری 2020ء سے جاری کورونا وباء کی لہر بھی ہے کہ اِس کے باعث صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بے روزگاری اور کاروباری سرگرمیوں میں تعطل و فقدان کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور کورونا وباء کی نئی لہر نے جو ہمارے درمیان پہلے سے زیادہ مہلک جرثومے (وائرس) کی موجودگی سے آگاہ کر رہی ہے‘ خدشہ ہے کہ اِس سے ایک مرتبہ پھر معاشی سرگرمیاں متاثر ہوں گی اور اگر ایسا ہوا تو جو غیرمعمولی حالات مہنگائی کا باعث بنے‘ اُن کا دوبارہ ظہور قوت ِخرید میں مزید کمی کا باعث بنے گا۔  یہ مرحلہئ فکر متقاضی ہے کہ ایسی مؤثر معاشی و اقتصادی پالیسیاں وضع کی جائیں جن سے مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پایا جائے اور کم آمدنی رکھنے والے طبقات کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔وفاقی ادارہ شماریات ہفتہ وار بنیادوں پر بنیادی ضرورت کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے جائزے پر مبنی رپورٹ جاری کرتا ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق (اُنتیس نومبر) کو شروع ہوئے رواں ہفتہ سے قبل دالوں‘ گھی‘ انڈوں‘ کیلوں‘ آلو اور لکڑی کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران بیس اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ آٹھ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی آئی۔ اس سلسلے میں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا‘ وہ روزمرہ استعمال کی ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر عام طور پر گھروں میں گزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں اضافہ برقرار رہا اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت فروخت ایک روپے بڑھ گئی جس سے ڈالر کی قیمت فروخت 178 روپے سے بڑھ کر 179 روپے ہو گئی۔ ڈالر کا حقیقی مؤثر شرح تبادلہ 165 روپے کے قریب ہونا چاہئے اور اِس سلسلے میں وزیرخزانہ شوکت ترین نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈالر آٹھ سے نو روپے نیچے آئے گا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”ہمارا مسئلہ غربت کا نہیں‘ مہنگائی ہے۔ لوئر مڈل کلاس طبقہ پس رہا ہے۔ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا رہے‘ نہ ہی ٹیکسوں میں اِضافہ ہو گا۔ صرف ٹیکسوں کے استثنیٰ کو ختم کیا جائے گا۔“ ظاہر ہے کہ استثنیٰ ختم ہونے سے بھی ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوگا لیکن جب ہم پاکستان میں مہنگائی کی بات کرتے ہیں تو یہاں دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے۔ ایک عوامی رائے اور دوسرا اقتصادی ماہرین کی رائے جو ورلڈ بینک کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں غربت ایک فیصد کم ہوئی ہے۔ ریسٹورنٹس میں قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ پرآسائش موٹر گاڑیوں کی بلند قیمتوں کے باوجود غیرمعمولی فروخت جاری ہے اور اگر امریکہ کی مداخلت پر تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو اِس کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جائے گا۔ حکومتی مؤقف کو آگے بڑھاتے ہوئے تجزیہ کار جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس میں حال کی بہتری سے زیادہ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات پر زیادہ زور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح موجودہ حکومت کو بھی ماہرین نے دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے اور گھما پھرا کر جو حقیقت بیان کی جاتی ہے اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت یہ بات سمجھ ہی نہیں پا رہی ہے کہ مہنگائی میں اضافے اور قوت ِخرید میں کمی کا اعتراف کرنے کے باوجود بھی جو کچھ کہا جارہا ہے اُس سے عام آدمی (پاکستانیوں کی اکثریت) کے مسائل ہوں گے یا نہیں! مہنگائی عالمی مسئلہ ہے تو جن ممالک میں اِس مہنگائی کا حوالہ دیا جاتا ہے وہاں عام آدمی کی قوت ِخرید بلند ہونے کی وجہ سے مہنگائی کا اثر پاکستان جیسا نہیں۔ کیا پاکستان میں حکومت کی مقرر کردہ کسی مزدور کی کم سے کم تنخواہ کی ادائیگی ہوتی ہے؟ کیا پاکستان میں بھی نجی ملازمت پیشہ ملازمین کی تنخواہیں یورپی ممالک کی طرح زیادہ ہیں؟ اگر نہیں تو افراط زر کو اُس سطح پر لانا ضروری ہے جو مغربی دنیا کی طرح عوام کی بلند قوت ِخرید کو متاثر نہ کرے!۔