گلی میں اگر صبح سویرے دن چڑھے دوپہر اور شام ڈھلے یہ تماشا ہو تو بندہ کہا ں جائے۔کوئی پڑھنے والا طالب علم ہو جو کلاس کی تیاری میں مصروف ہو۔اپنا لیکچر تیار کرنا پڑا ہو۔ اس کے تو دماغ کی رگیں باریک تاریں جل اٹھیں گی۔ کانوں سے دھوئیں نکلتے ہوں گے۔کیونکہ پڑھنے پڑھانے کا عمل گلی میں کھلنے والی بیٹھک میں تو ممکن نہیں۔ پھر دوسری طرف جو چھابڑی فروش آتے ہیں۔ مگر ہمیں توجلن اور کڑھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کبھی تو گدھے پر سبزی رکھ کر بیچنے والا آواز لگائے گا۔تھوڑی دیر کے بعد چنگ چی لوڈر پر بھی سبزی فروخت کرنے والے صبح دم اپنی سی صدا لگائیں گے۔پھر یہ آوازیں خود ان کے لئے بہت دلکش ہوں۔مگر وہ آوازبھی تو نہیں کہ ہم کہیں ”آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز۔ مدہوش دل و جاں کو بناتی ہوئی آواز“۔طالب علم نے سوال کا رٹا مارنا ہوتا ہے۔کسی سٹوڈنٹ نے استادکا دیا ہوا ہوم ورک کرنا ہوگا۔مگر وہاں سے آواز آئے گی ”نئے آلو لے لو نئے ٹماٹر ہیں“۔سہولت تو حاصل ہو گی جو گھر کی دہلیز پر روز انہ یہ سودا مل جاتا ہے۔ مگردماغ جو پہلے ہی کام نہیں کرتا ہوتا۔اس یکسوئی کی کوشش کویہ آوازیں کہیں دور بہت دور بھگا دیتی ہیں۔ کسی کو رز ق کمانے سے کوئی کیوں روکے۔ انھوں نے سودا سلف بیچنے کو آنا ہوگا۔ہم نے یہ آوازیں سننا ہوں گی کیونکہ ان کا تو کوئی قصور نہیں۔ہا ں ہمارا قصور ہے۔وہ یہ ہے کہ ہمیں پورے گھر میں جو بچوں کا گھر بنا ہوا ہے۔اس گھر میں کہیں بھی آرام سے بیٹھ کر مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔کہیں کوئی سو رہا ہے تو فریاد کرتا ہے کہ لائٹ بجھاؤ نیند خراب ہو رہی ہے۔ کہیں بچوں کے نیند سے بیدار ہوجانے کا خوف ہے۔وہ اگر اٹھ گئے تو بچہ لوگوں نے رو دھوکر اور شرارتوں سے پورا گھر سر پر اٹھانا ہے۔ایسے میں کوئی میخیں ٹھونکنے والا یا کوئی اور کام تو ہوسکتا ہے۔مگر پڑھنے کا ڈول نہیں ڈالا جا سکتا۔اب شہر میں اتنے چھوٹے چھوٹے گھر ہیں کہ آدمی اپنی رہائش ترک کر کے آخر کہاں جائے۔پھر شہر سے باہر کون سا حال اچھا ہے۔وہاں بھی اسی قسم کا شور ہے۔ شور کی آلودگی کی تعریف بھی تو یہی کہ شور ناپسندیدہ آواز کو کہتے ہیں۔گلی میں بیٹھک کا دروازہ کھلتا ہو۔کھڑکیاں بھی گلی کی سمت ہوا کے لئے کھل جاتی ہوں۔اگر دروازہ نہ بھی کھلے اور کھڑکیاں بھی اس سر د موسم میں ہوا دار نہ ہوں۔ایسے میں ہوا کو تو اندر آنے سے روکا جا سکتا ہے۔مگر گلی کوچے میں پھیری والوں اور بچوں کے کرکٹ کھیلنے اور آؤٹ آؤ ٹ کے شور کی آواز تو دیواروں میں سوراخ کرکے یاان کو پھلانگ کر آئے گی۔ گلی میں اگر بھینسوں کا باڑہ ہو تو پھر تو حال ہی برا ہے۔جہاں خواتین گلی میں آتی جاتی ہیں وہاں ان کواس ماحول میں بہت ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی گائے ا ن کوٹکر نہ مار دے۔گلی میں اگر کوئی کارخانہ کھلا ہو جس کی مشینوں کی آواز ہمہ وقت آتی ہو۔ پھروہاں کام کاج میں کوئی وقفہ بھی نہ ہو۔اس عالم میں بندہ کہا ں بھاگ کر جائے پھر ہمارے ہاں شہروں میں نہ توکوئی لائبریری گھر کے قریب ہے اور نہ ہی کوئی پارک ہے۔ پارک میں چوکیدار چھوڑتا نہ ہو اور دن ڈھلے دروازوں کو تالے لگ جاتے ہوں تو پھر کیا کریں۔ ایسے حالات میں سنجیدگی سے پڑھنے لکھنے والے طالب علم ہاسٹل میں شفٹ نہ ہوں تو کیا کریں۔میگا فون اٹھا کر کیلے بیچنے والا اس طرح کی صدا لگائے گا کہ اگر ہم گلی سے اندر کی طرف دور گھر کے کسی کونے میں بھی چھپے ہوں۔خواہ تہہ خانے میں بیٹھے ہوں وہاں بھی اس کی بھاری بھر کم آواز اپنی پوری آلودگی کے ساتھ سنائی دے گی۔موٹر سائیکل پر پاپڑ فروخت کرنے والا آئے گا۔پھر اگر کچھ بھی نہ ہو تو ہوائی فائرنگ تو کہیں گئی نہیں۔ کیونکہ بیٹھک سے ذرا دور شادی ہال ہے۔وہاں آئے دن بیاہ ہو رہے ہیں ایک وہ مرغیاں بیچنے والابھی آتا ہے۔تیز طرار سروس ہے۔وہیں دروازے پر مرغی حلال کرکے دے گا۔ مرغیاں بیچنے سے یاد آیا۔پاس کے ملک میں ایک انوکھی ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے‘ایک شہری کا پولٹری فارم ہے۔جس کے پاس رات گئے ایک بارات کا گذر ہوا۔وہ دھوم دھڑکا او رشور شرابا تھا کہ توبہ توبہ۔اس نے کہا میری کچھ اوپر ساٹھ مرغیوں کو شادی کے ڈھول باجے اور شور کی وجہ سے دل کا دورہ پڑ ا ہے۔چونکہ ان کان پھاڑنے والی آوازوں کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا ہے اس لئے اس کی ساری ذمہ داری باراتیوں پر آتی ہے۔بارات کے شرکاء پر یہ ایف آئی آر اس لئے کٹوائی ہے کہ دولھا کے گھر والے تاوان نہیں دے رہے۔