اومیکرون اور ووٹنگ مشین

کورونا وائرس کا ابھی تک مکمل صفایا نہیں ہوا۔ اس نے صرف اپنا ر نگ بدل کر اومیکرون کی شکل میں سر اٹھایا ہے جس کی وجہ سے کئی ممالک نے تو ان ممالک سے آ نے والی فضائی پر وازیں بند کر دی ہیں کہ جہاں اس نئے وائرس نے جنم لیا ہے نئی قسم کے اس وائرس کی طاقت کا سائنسدان اندازہ لگا رہے ہیں اور اس بات پر بھی غور و خوض جاری ہے کہ کیا جن لوگو ں نے اس وبا سے بچاؤ کیلئے ویکسینیشن کرا لی ہے ان کو مزید بوسٹر ڈوز لگانے کی ضرورت ہو گی یا نہیں۔بہرحال ہماری حکومت کو ابھی سے اس نئی آ فت سے بچنے کیلئے حفاظتی اقدامات لینے ہوں گے اور عوام کو یہ باور کرانا ہو گا کہ اگر انہوں نے ایس او پیز پر عمل میں رتی بھر بھی غفلت کا مظاہرہ کیا تو یہ کویڈ 19 کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ آج کل ملک کے سیاسی حلقوں میں یہ گفت و شنید بڑی شدت سے چل نکلی ہے کہ کیا آئندہ عام انتخابات نئی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہونے چاہئے یاپھر موجودہ نظام کے تحت اس ضمن میں مختلف آرا کا خیال کیا جا رہا ہے خدا لگتی یہ ہے کہ سب بات نیت کی ہے اس ضمن میں کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے درج ذیل سوالات کے جوابات غیر مبہم الفاظ میں آنے ضروری ہیں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اب آئندہ الیکشن کے انعقاد کی ممکنہ تاریخ میں صرف چند ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے اگر دو منٹ کیلئے یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے اور یہ کہ اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی مثال کے طور اسے تسلیم کر لیا ہے تو کیا حکومت کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ 2023  کا جنرل الیکشن اس مشین کے تحت منعقد کرا سکے کیا اس تھوڑے سے عرصے میں کہ جو آئندہ الیکشن کی ممکنہ تاریخ کو رہ گیا ہے حکومت کیلئے ممکن ہوگا کہ وہ الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کی خریداری کا عمل بطریق احسن آ ڈٹ اینڈ اکاونٹس کے اصولوں کے مطابق سر انجام دے سکے الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعے الیکشن کرانے کے لیے حکومت کو دو بڑے اہم مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ ان مشینوں کو آپریٹ یعنی چلانے کے واسطے ایک تربیت یافتہ عملہ درکارہو گا دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کے ووٹرز کی ایک اکثریت نا خواندہ ہے کیا بغیر کسی عملی ٹریننگ اور تربیت کے ان کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اس مشین کے ذریعے اپنا ووٹ ڈالیں کیا اس مقصد کے لیے ابلاغ عامہ کے مختلف اداروں یعنی ٹیلی ویژن ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے ایک لمبی اشتہار ی مہم کے ذریعے ان کی اس مشین کو صیح طور ہر آ گاہی مہم ضروری نہ ہو گی ہماری نظر میں تو اس معاملے کا احسن طریقے پر حل یہ ہے کہ عوام الناس کو خصوصاً ووٹرز کو اس مشین کے استعمال سے آگاہی دینے اور ان کی ٹریننگ کیلئے پہلے مرحلے میں جو بات ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس مشین کو 2023 کے الیکشن میں استعمال نہ کیا جائے اور اسے آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے بعد یعنی 2023اور 2028 کے ددمیان جو بھی اس کے درمیانی عرصے کے دوران ضمنی الیکشن ہوں ان تمام انتخابات میں استعمال کیا جائے جوں ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت 2018 میں برسر اقتدار آئی تھی تو پہلے ہی دن سے اس کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ملکی انتخابات میں استعمال کرنے کا کام شروع کر دینا چاہئے تھا اگر ایسا کیا جاتا تو آج حکومت اس پوزیشن میں ہوتی کہ اسے ان سوالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو ہم نے اوپر کی سطور میں اٹھائے ہیں جو کام اسے 2018 میں شروع کرنا چاہئے تھا وہ اس نے تین سال کی دیری کے بعد 2021 میں شروع کیا ہے اور ظاہر ہے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے یہ کام 2023 تک بطریق احسن ختم کرنا نا ممکنات میں شامل ہے۔