قیدخانے اور اصلاح معاشرہ

وفاقی محتسب کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی 116جیلوں میں 88 ہزار سے زیادہ قیدی ہیں جبکہ ان کی گنجائش پینسٹھ ہزار سے زیادہ ہے۔ گنجائش سے زیادہ قیدیوں کیلئے جس اضافی قیام و طعام کی ضرورت ہے وہ جیل خانہ جات میں دستیاب نہیں اور جیل خانہ جات کے وسائل پر بھیڑبھاڑ کی وجہ سے قیدیوں کو وہاں سہولیات کمی کا سامنا رہتا ہے جو اِس لحاظ سے تشویشناک امر ہے کہ ایسی صورت میں وبائی امراض پھیل سکتے ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ قیدخانے کے اگر کسی ایک کمرے میں زیادہ سے زیادہ آٹھ افراد (ہر کونے میں دو افراد) کی گنجائش ہو لیکن اگر اُس میں پندرہ سے بیس افراد کو ٹھہرایا جائے تو ایسی صورت میں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی کوٹھڑی کے آدھے قیدی کمر سیدھی کرکے اور پاؤں پھیلا کر لیٹتے ہیں تو دوسروں کو کھڑے رہنا پڑتا ہے یا وہ کسی کونے میں پاؤں سکیڑ کر اپنی باری آنے تک بیٹھے رہتے ہیں۔ یہی حالت سزائے موت پانے والے قیدیوں کی بھی ہیں‘ جنہیں دیگر قیدیوں سے الگ رکھنا ہوتا ہے لیکن اُن کی کہانی بھی ایک جیسی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ایک سو سولہ جیلوں میں تیرہ سو سے زیادہ خواتین اور چودہ سو نابالغ بچے بھی قید ہیں۔ دوہزار کے جووینائل جسٹس سسٹم آرڈیننس نامی قانون کے تحت فیصلہ کیا گیا تھا کہ نابالغوں کو بالغ اور سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں یا عادی مجرموں کو دیگر عمومی جرائم کے مجرموں کے ساتھ اکٹھا قید نہیں رکھا جائے گا لیکن قیدخانوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہونے کی وجہ سے اِیسا کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کا مسئلہ دیرینہ ہے اور دہائیوں سے صورتحال ناقابل بیان ہے لیکن مسئلے کا پائیدار حل تلاش نہیں کیا جا رہا ہے وفاقی محتسب نے قیدیوں کی بائیو میٹرک تصدیق پر مبنی حاضری کا نظام لگانے کا بھی حکم دیا ہے جس کے ذریعے نہ صرف قیدیوں کی شناخت بلکہ اُن کی صحت اور قیام و طعام سے متعلق معلومات کو بھی ایک جگہ رکھا جا سکے گا اُور یوں قیدخانوں کے امور منظم ہوں گے۔ وفاقی محتسب کو یہ بھی بتایا گیا کہ ذہنی طور پر پریشان قیدیوں کو اب دیگر قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھا جا رہا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو الگ رکھا جاتا ہے اِس بارے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے قیدخانوں میں انسانی سلوک اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے ایک معقول حل کی طرف بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر مقدمات کی سماعت جلد ہوں اور معمولی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو قیدخانوں کی بجائے اصلاحی مراکز بھیجا جائے‘ جہاں اُن کی اخلاقی تربیت کا اہتمام ہو اور اُنہیں معاشرے کا فعال کردار بنانے کے لئے محنت کی جائے تو قیدخانے کا پورا عمل زیادہ معنی خیز اور ملک و معاشرے کے مفید ہو سکتا ہے۔ یورپی ممالک میں معمولی جرائم کرنے والوں کو قید نہیں رکھا جاتا بلکہ اُنہیں ایک خاص علاقے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی جسے ’کفنگ سسٹم‘ کہا جاتا ہے‘ یعنی قیدخانوں کی ضرورت تو رہتی ہے تاہم اس پر بوجھ نہیں ڈالا جاتا اور حتیٰ الوسع کوشش کی جاتی ہے کہ جیل خانوں میں وہی قیدی رکھے جائیں جن کو یہاں رکھے بغیر چارہ نہیں۔ اصولاً قید رکھنے جیسی سزا کا مقصد بھی اصلاح ہوتی ہے لیکن اگر یہ مقصد بنا قید کئے معنوی انداز میں حاصل ہو سکے اور سزا ملنے کے بعد سماجی خدمت اور تعلیم کے ذریعے اگر قیدی زندگی کی طرف واپس لوٹنا چاہئے تو حکومت اور معاشرے کو ایسے اصلاح کی طرف مائل قیدیوں کیلئے درمیانی راستہ فراہم کرنا چاہئے۔