اس شہرِ دلبرا ں میں ہر سُو سڑکوں کا جال بُنا ہواہے۔مگر افسوس کہ جو سڑکیں پہلے سے بنی ہوئی ہیں ان کی دیکھ بھال نہیں۔جو نئی بن رہی ہیں وہ انتہائی سست رفتاری سے زیرِ تعمیر ہیں۔اپنی سیاست سے فراغت ہی ابھی تک حاصل نہیں پائی۔ وہ الجھنیں ہیں کہ سلجھ نہیں رہی ہیں۔ تاکہ وہ فارغ البال ہو کر تعمیراتی کامو ں میں دلچسپی کامظاہرہ کریں۔سڑکو ں پر جا بجاکھڈے ہیں۔ جو مرمت تو خاک ہوں۔ان کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔بارش کے قطرو ں نے برس برس کر اس ناقص میٹریل کی بیخوں میں وہ پانی دیاکہ پتھروں میں سوراخ کر ڈالے ہیں۔ ان گڑھوں میں آبِ رواں یوں بنیادو ں میں جم گیاکہ کہیں کوئی شہری سڑک پر اپنے گھر کے سامنے ذرا چھڑکاؤ بھی کرے تو ہفتہ ہفتہ ان کھڈوں میں سے پانی سوکھ ہی نہیں پاتا۔الٹا وہاں سے جو راہگیر گذرے اس کے کپڑے اس گندے پانی سے لتھڑے جاتے ہیں۔کب اس شہر کی سنی جائے گی۔ اب دلہ زاک روڈ کولیں۔سال بھر پہلے اس پر ابتدائی کام ہوا اور نادرن بائی پاس تک روڑے بچھا دیئے گئے۔ مگر جانے وہ لوگ کہا ں گئے جو لوگوں کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔سنا ہے کہ یہاں نئی نویلی سڑک بنے گی۔مگر سنا ہے دیکھا نہیں۔کبوتر چوک سے لے کر بائی پاس کی پُل تک برا حال ہے۔ جو گاڑی ایک آدھ میل کا سفر یہاں طے کرتی ہے۔اس کے ٹائر ان پتھروں کی رگڑ سے اپنی میعاد سے پہلے گھس جاتے ہیں۔پھر ان روڑوں پر گذرنے سے آدمی یوں اوپر نیچے ہوتا ہے کہ ابھی منہ سے آنتیں باہر آئیں اور ابھی آئیں۔یوسف رضا گیلانی کے زمانے میں ان کے آبائی شہر ملتا ن میں صرف ایک مہینے میں گرانڈیل پل تعمیر ہوا۔راتوں رات اس پر کام ہوا اور ریکارڈ مدت میں سیمنٹ کا ایک قوی ہیکل پُل ہوا میں باندھ دیاگیا۔ ہمارے ہاں تو اتنی تیز رفتاری سے کام نہیں ہوتا۔ سالوں لگ جاتے ہیں۔بلکہ سات سال میں بھی ایک طویل سڑک نہ بن پائے تو بہت افسوس کی بات ہے۔دلہ زاک روڈ کی بات پھر کرتے ہیں جوبہت تنگ سڑک تھی۔ مگر اس پر سالوں پہلے کام چالو کیاگیا ۔ پھراس کو چوڑا کیا گیا۔ اب اس انتظار میں کہ اس کشادہ سڑک کو تعمیر بھی کیا جائے آنکھیں سرِشام کی شمع کی مانند جلنے لگی ہیں۔اس سڑک کے دونوں کنارو ں پر سکول کالج اور یونیورسٹی واقع ہیں۔جہاں روزانہ کے حسا ب سے ہزاروں طالب علم پیدل اور گاڑیوں میں لد کر یہاں سے گذرتے ہیں۔ ان کے صاف ستھرے یونیفارم مٹی سے اٹ جاتے ہیں۔سپلائی روڈ کو دیکھیں جو گل بہار تھانے کے سامنے نہر کے کنارے جاتی ہوئی دلہ زاک روڈسے ملتی ہے۔اس سڑک کو بہت زیادہ انتظارکے بعد آخر ِ کار تعمیر کر ہی لیا گیا۔ بہت خوبصورت سڑک بنی۔ گاڑی یہاں سے گذرے تو لگتا ہے ہم گھر میں صوفہ پر آرام سے بیٹھے ہیں۔جب سڑک بنی تو اس پر کوئی سپیڈ بریکر نہ تھا۔ بہت دل خوش ہوا۔مگر جس بات کا ڈر تھا آخر وہی ہوا۔میں نے کہا تھا سڑک تو بن گئی مگر اب اس پر پھر سے سپیڈ بریکر بنیں گے اور اس سڑک کو دوبارہ سے چھیل کر اس میں نہر کی طرف گندا پانی گرانے کو آر پار نالیاں بنیں گی۔ اب خیر سے وہاں مہینہ بھر ہوا ایک عدد سپیڈ بریکر بہت محنت کرکے بنایاگیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ حکومتی کرداروں کا چمتکار تو نہیں۔ یہ تو قریب کے رہائشیوں کا کارنامہ ہے۔ظاہر ہے کہ وہاں کوئی حادثہ ہوا ہوگا۔ اسی لئے تو یہ کار بریکر بنا ہے۔ اس کی ساخت سے لگتا ہے کہ ا س میں شہریوں کی انتقامی کاروائی بھی شامل تھی۔ جتنا بڑا حادثہ ہو وہاں سپیڈ بریکر اتنا ہی بڑا بنتا ہے۔ساتھ ایک چھوڑ دو دو بن جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم لوگوں میں یہ سینس ہی نہیں کہ سڑک بنی ہے کوئی رن وے نہیں بنا جو اس پرہر طرح کی گاڑی سپیڈ سے گذرے۔پھر تیز رفتاری کے باعث کسی کی گاڑی کو ٹھوک دے یا کسی بچے کو نیچے کچل دے۔