نصف صدی کا قصہ ہے 

حفیظ جا لندھری کے مشہور مصرعے کا یہ ٹکڑا بار بار یاد آتا ہے بار بار دہرا نے کو بھی دل چا ہتا ہے اس میں معنی اور مفہوم کا سمندر چھپا ہوا ہے سوشل میڈیا پر نصف صدی پہلے کے منا ظر کی جو تصویر یں آتی ہیں وہ مو جو دہ ترقی یا فتہ دور کا نو حہ بن جاتی ہیں پشاور میں نصف صدی پہلے کا آسا ما ئی دروازہ آج کس حال میں ہے؟نوشہرہ‘ مردان‘ ایبٹ آباد‘بنو ں اور ڈی آئی خا ن کے کسی بھی چوک کی پرانی تصویر لیکر نئی تصویر کے ساتھ موازنہ کریں آپ کو پھوٹ پھوٹ کر رونا پڑے گا۔دور دراز دیہا ت اور پہا ڑی علا قوں کا حال بھی ایسا ہی ہے جن نہروں پر گاؤں کے لوگ پا نی پینے آتے تھے وہ نہریں اب گند ی نا لیاں کہلا تی ہیں جن زمینوں پر گندم، چاول اور جوار کے کھیت لہلہاتے تھے ان زمینوں پر سریا اور سیمنٹ کی فصل اُگ آئی ہے‘جو لوگ آج شہروں کے اندربڑے گھروں میں رہتے ہیں ان کو زندگی میں ہر سہولت میسر ہے پھر بھی جب گاؤں کے کچے مکان کی یا د آتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ چکدرہ‘ تھا نہ‘ کبل‘ چترال ارناوی اور کنڑ کا چاول آج بھی لو گوں کو یا د ہے وہ چاول لذت کے ساتھ ساتھ خوشبو اور مہک میں اپنی مثال آپ تھا۔ آج بیس اقسام کے چاول الگ الگ پکا ئیں ان میں درجنوں اقسام کے مصالحے بھی ڈال دیں نصف صدی پہلے پا نی میں اُبلے ہوئے چاول کا مزہ نہیں ہو گا وہ خوشبو اور مہک نہیں ہو گی۔ نصف صدی پہلے ہم لو گ چھٹیاں گذار کر سکول جا نے کیلئے چار دنوں کے پیدل سفر پر نکلتے تھے شام کو کسی بستی سے گذر تے تو پوری بستی خوشبو بر سا تی تھی صبح کے وقت کسی گاؤں سے گزرتے تو پورا گاؤں خوشبو سے معطر لگتا تھا فیض نے کہا...ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن....یا د وں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جا تی ہے...ہمارے راستے میں پڑنے والے دیہات کی یہ عطر بیز خوشبو اخروٹ کے تیل کی خوشبو ہوا کر تی تھی شام کو چاول کا تڑ کا ہو تا تھا صبح کے وقت پراٹھے اسی تیل میں تلتے تھے نصف صدی گذر نے کے بعد آج ہم انہی دیہا ت سے گذر تے ہیں تو ڈیزل‘ پیٹرول‘ مو بل آئل اور مٹی کا تیل کی بد بو آتی ہے سائلنسروں کا دھواں ہمارا استقبال کر تا ہے ہم سکول میں پڑھتے تھے تو دکا ن سے مر غی اور انڈا لانے کا نا م نہیں سنا تھا ہم گھروں سے مر غی اور انڈا لے جا تے تھے دکا ن سے چا ئے اور نمک لاتے تھے ہمارے سکول کے استاد نے ایک آد می کو دودھ کیلئے پیسے دئیے تو اُس نے یہ کہہ کر واپس کر دیا اگر آج میں نے دودھ کیلئے پیسے لئے تو کل میرے بچوں کیلئے پیغور ہو گا نصف صدی گذرنے کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ جس کی تنخواہ فقط 40روپے تھی اس کا بیٹا دو لا کھ روپے تنخواہ لیتا ہے لیکن انڈا‘ مرغی اور گوشت کا وہ مزہ اور لطف نہیں ہے‘ پھلوں میں وہ مٹھا س نہیں۔سبزیوں میں وہ لذت نہیں‘ وہ مٹھا س‘ وہ لذت کدھر گئی؟ آج گھی بھی کارخانے کا ہے انڈا بھی کا رخا نے کا ہے مر غی بھی کا رخا نے کی ہے۔کا ر خا نے میں سب کچھ ہے فطرت کا حسن نہیں زمین کی مٹی کو مصنو عی کھا د نے آلو دہ کر دیا‘ہواؤں کی خو شبو کو کیڑے مار دواوں نے زہر یلا کر دیا یہ دور جدید کا علم اور فن ہے جس نے ہم سے خالص خوراک، خا لص ہوا کو چھین لیا۔خا لص پا نی کو چھین لیا اب ہم گذری ہوئی نصف صدی کو یا د کر کے صرف ترستے ہیں اور کہتے ہیں ”نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں“۔