’قومی ترقی‘ کی شاہراہ پر ہر قدم ’بدعنوانی سے بیزاری کا اِظہار‘ کرنے والی اقوام نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے اور یہی وہ نظریہ ہے جس کی جانب توجہ دلاتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ ’کرپشن فری سوسائٹی‘ اور ریاست مدینہ کے خدوخال ہی اچھے مستقبل کی نوید بن سکتے ہیں۔بے وسیلہ ’ہم عوام‘ کیلئے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری جیسے مسائل پہلے سے زیادہ گھمبیر دکھائی دے رہے ہیں جو اس امر کے عکاس ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کی اقتصادی مالیاتی پالیسیو ں اور کرپشن کے حوالے سے موثر اقدامات نہ ہونے کے باعث آج مسائل کا حجم زیادہ بڑا ہوگیا ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب عوام کی اکثریت کو ہمہ وقت روٹی روزگار کے لالے پڑے ہوں اور وہ سرعت کے ساتھ خط ِغربت کے نیچے لڑھک رہے ہوں تو معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہونا اس کا ایک نتیجہ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں مفاد پرست طبقات کے گٹھ جوڑ نے منتخب جمہوری نظام سے عوام کو مایوس اور بدگمان کیا ہے کیونکہ ایک طرف دولت کا ارتکاز ہے کہ جس میں سرمایہ دار ہر دن امیر جبکہ غریب ہر دن غریب ہو رہا ہے تو دوسری طرف معاشرے کے غیرمتوازی ہونے کا ایک سبب (جواز) یہ ہے کہ معاشرے میں کرپشن کا چال چلن حکومت کی سر توڑ کوششوں کے باجود موجودہے۔ پاکستان کی سیاست میں ہر جماعت اور ہر رہنما استحصالی نظام کے خاتمہ کی بات کرتا ہے، تاہم یہ آسان کام نہیں، جس بیماری کی جڑیں جسم میں مضبوطی سے جمی رہیں ان کاخاتمہ مشکل ہوتا ہے۔ جہاں تک وزیراعظم عمران خان کے اِس مؤقف اور اصول پسندی کا تعلق ہے تو وہ اپنی ذات میں غیرمتنازعہ ہے اور پاکستان کی اکثریت کا آج بھی اگر کسی ایک ایماندار حکمران پر اتفاق ممکن ہے تو عمران خان کے علاوہ شاید کوئی دوسری ہستی نہیں لیکن ظاہر ہے کہ عمران خان تن تنہا کچھ نہیں کر سکتا اور یہی اِن کی تین سالہ کارکردگی کا نچوڑ ہے کہ وہ جب بھی عوام سے خطاب کر رہے ہوتے ہیں‘ تو درحقیقت اُن کے مخاطب اس نظام میں موجود سبھی ہوتے ہیں۔جنہیں ہم خیال بنانے کی کوششیں خاطرخواہ کامیاب نہیں ہو رہیں وزیراعظم کا یہ قول لائق توجہ‘ سبق آموز اور مسلمہ ہے کہ ”اخلاقی اقدار کے حامل معاشرے کو ایٹمی بم بھی تباہ نہیں کر سکتا لیکن اگر وہاں بدعنوانی (کرپشن) کو بُرائی نہ سمجھا جائے تو پھر محنت اور قومی وسائل سے محبت کون کرے گا؟“