اس کے سوا جانا کہا ں 

”اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں“۔ ابنِ انشا کا یہ مصرع بہت یاد آتا ہے۔خاص طور پر اس وقت جب شہرمیں گھومتے پھرتے کہیں جاناہو کسی کو بلانا ہو بس انتظار ہی انتظا رہوتا ہے۔کسی چوک کے ٹریفک میں پھنس جائیں تو وہیں کھڑے آنکھوں میں دیپ روشن کئے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ہوائیں اوپر ہی اوپر اور پرندے سر بہ فلک عمارتوں سے سرگوشیاں کرتے ہوئے گذرتے جاتے ہیں۔ ہماری نااہلی کی چغلیاں کھاتے ہوئے آن کے آن  میں کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں۔ پھر ہم تو انھیں راستوں میں دو میل کے سفر میں خوار و زار ہوکر رُل کر چہرے او رکپڑوں پر راستے کی دھول لے کر حیران و پریشان ہوتے رہتے ہیں۔جتنی دیر میں موٹر وے کی اُترائی سے بندہ حیات آباد پہنچتا ہے۔ اتنی دیر میں تو موٹر وے پر اسلام آباد کو واپس لوٹ جائے تو پل جھل میں پہنچ جائے گا۔ایسے میں نہ ٹریفک کا رش ہوگا اور نہ ہارن بجانے او ربار بار بجانے کا جھنجٹ ہوگا۔ آرام سے شہر کے باہر پہنچ جائیں گے۔ مگر شہر کے اندر جس سڑک پر گاڑی کو دوڑائیں جگہ نہ پائیں اور شور مچائیں برا بھلا کہیں۔کبھی گاڑی سے سر نکال کر سامنے یا ساتھ والی گاڑی کے اس وقت کے ڈرائیورسے راستہ دینے کی بھیک مانگیں۔ جہا ں جاناہو نزدیک ہو مگر گاڑی ہو تو گھنٹہ تو کہیں گیا نہیں۔ ہر طرف رش ہے اور گاڑیوں کا ایک سیلاب ہے۔اس ریلے میں بندہ گرتاپڑتا چلا جاتا ہے۔اپنی مرضی کوئی نہیں کہ میں نے اس راستے سے اپنی منزل کو پہنچنا ہے۔گھر سے نکلتے ہوئے کوئی اور پلاننگ کرو اور راستے میں ٹریفک کی بندش کو دیکھ کر کوئی اور راستہ اختیار کرو۔کہیں سے کہیں اپنی مرضی کے خلاف پہنچ جاؤ۔ کیونکہ کبھی کہیں کسی چوک میں جلسہ ہے اورکہیں کوئی بڑی شخصیات بھاری بھرکم گاڑیوں میں گذر رہی ہوتی ہیں۔اس لئے ٹریفک سپاہیوں نے گاڑیوں کے اس بہاؤکو کسی اور رخ پر ڈال دیاہوتا ہے۔افسران جو اپنے دفاتر سے نکلتے ہیں وہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے حیران و پریشان ہو تے ہیں کہ اب کیا کریں۔کہاں جائیں۔کون سا رُوٹ اختیار کریں۔ کسی تقریب میں اپنے حساب سے وقت پر پہنچنے کے لئے وقت پر دفتر سے نکلیں گے مگر راستے ہی میں کہیں کھو جائیں گے۔شہر پشاور کا کوئی روڈ ہو وہاں یہ مصنوعی رش منہ چڑاتا ہے۔ چارسدہ روڈ پر بڈھنی کے قریب رش آگے جاؤ تو شاہ عالم پل کے پاس رش ہر طرف بھیڑ بھاڑ۔خیالی پُل کے پاس شادی ہال میں جانا ہوا تو اتنی بھیڑ تھی کہ ڈیڑھ گھنٹہ میں شہر پشاور کی حدود میں داخل ہوئے۔ جی ٹی روڈ ہو تو یہاں نہ آئیں اور شہر سے باہر نوشہرہ کو جائیں یہ تو ہو نہیں سکتا۔یہاں آنا ہے اور دل جلانا ہے۔رنگ روڈ بھی مصروف ہے۔آخر ہم سے زیادہ ترقی یافتہ او رآبادی والے شہر بھی ہیں۔یہاں بھی اوروہاں بھی۔مگر یہاں جو اودھم مچا ہوا ہے مغرب کے ملکوں میں نہیں ہے۔پیرس انگلینڈ کو لیں رش کے عالم میں ایک سسٹم کے ساتھ ٹریفک کا بہاؤ اپنی منزل کو رواں دواں ہوتا ہے۔ایک خرابی ہے بلکہ خرابیاں ہیں جو ہمارے ہاں ہیں اور فروغ پا رہی ہیں۔ ہمارے چوک تو اب قبضہ ہو چکے ہیں۔جلسہ ہونے سے دو دن قبل ہی وہاں آوت جاوت منسوخ اگر نہ ہو تواس میں قرارِ واقعی خلل پڑ جاتا ہے۔گھر جانے والے یا گھر سے جانے والے سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اب کون سا راستہ اختیار کریں۔ اس علاقے کے سکول کالج بند ہو جاتے ہیں۔کیونکہ اگر کسی کو راستہ ملے تو وہ گھر سے جائے یا گھر کو روانہ ہو۔ جو جہاں ہیں وہیں الجھ کر پھنس کر رہ جاتے ہیں۔لے دے کر موٹر وے ہے جہاں گاڑی کو ٹاپو ٹاپ کر دیں تو مزاآتا ہے۔پہلے تو چھٹی کے دن شہر کے اندر کی فضا میں سکون ہوتا تھا۔سڑکیں نسبتاً خالی ملتی تھیں۔ مگر اب تواتنا اژدہام ہے کہ چھٹی کے دن بھی رش سے چھٹی نہیں ملتی۔وہ مومن کاشعر یاد آیا ”مکتبِ عشق کادستور نرالا دیکھا۔اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا“۔ہمیں تو اپنا شہر کتاب کے سبق کی طرح زبانی یاد ہے پھرخوب یاد ہے۔ اس کے راستے اس کے چورستے اس کی شاہراہیں اس کے گلی کوچے اس کی ریل پٹریاں جیسے ہمارے دل میں سے ہو کر گذرتی ہیں۔ اسی لئے تو ہمیں اس کی آب وہوا اس کی فضا کی محبت سے چھٹی ہی نہیں ملتی کہ ہم کسی اور شہر کا ذکر کریں۔وہ کہتے ہیں کہ تم شہر پشاور سے کیا لیتے ہو۔ تمھارے پاس کسی اور شہر کا ذکر نہیں۔مگر ہمارا جواب اس کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا کہ ہمارے پاس یہی شہرتو ہے جو ہمارا سرمایہ ہے ہمارے بچپن کا مسکن ہمارے مستقبل کاامین۔”اس کے سوا جانا کہا ں“۔بادل اڑکر یہاں کے وہا ں او رکہاں سے کہا ں چلے جاتے ہیں۔ پرندے پنچھی جاتے آتے ہیں۔یہاں کے چھ دریا رینگ کر پنجاب میں داخل ہو تے ہیں۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین پر سندھ کے پانیو ں میں گرتے ہیں۔پھر یہی دریا آگے چل کر سندھ میں سمندر کی پہچان بنتے ہیں۔یہ خوبصورت زمین ان دنوں آلودگی اور گند کے ڈھیرو ں کے نرغے میں ہے۔اس کی خوبصورتی کو واپس لانا ہے۔اس کے ٹریفک سسٹم کو مزید بہتر بنانا ہے۔