نئی محاذ آرائی 

قومی امور میں کوئی ایک بھی ایسا معاملہ نہیں جس پر ’قومی اتفاق رائے‘ پایا جاتا ہے تو ایک ایسی اجتماعی اور اختلافی صورتحال میں کس طرح اُمید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے متعلق وفاقی حکومت کی خواہش پوری ہوگی! منظرنامہ یہ ہے کہ وفاقی کابینہ اجلاس نے توجہ دلائی ہے کہ ”الیکٹرانک ووٹنگ مشین (اِی وی ایمز)“ سے متعلق کسی بھی تکنیکی پہلو یا مجبوری کو آڑے نہیں آنے دیا جائے گا۔ بلاشک و شبہ عام انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کی خاطر ووٹنگ کے لئے ’ای وی ایمز‘ پر زور دیا جا رہا ہے اور اس کیلئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ”وائس ووٹ“ پر عددی اکثریت کے تحت قانون بھی منظورکیا گیا ہے جس کی بنیاد پر اب وفاقی کابینہ کی جانب سے الیکشن کمیشن پر انتخابات ’اِی وی ایمز‘ پر منتقل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن اس تمام تر پیشرفت کے باوجود الیکشن کمیشن کیلئے فوری طور پر انتخابات ’ای وی ایمز‘ پر منتقل کرنے کے انتظامات ’طویل عمل‘ کے متقاضی ہیں جس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے پہلے ہی حکومت کو مراسلہ بھجوایا جا چکا ہے۔ جس میں بنیادی تقاضا الیکٹرانک مشینوں کی خریداری اور دیگر انتظامات کے لئے درکار اربوں روپے کا ہے۔ اسی طرح ’ای وی ایمز‘ کے استعمال کے حوالے سے انتخابی عملے کی تربیت اور ووٹروں کو اس کے استعمال کے طریقہئ کار سے آگاہ کرنے کا عمل بھی دقت طلب ہے اور اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن کی جانب سے پہلے ہی ’ای وی ایمز‘ کے ذریعے آئندہ عام اِنتخابات کرانے سے معذرت کر رکھی ہے۔ حکومت بمقابلہ الیکشن کمیشن منظرنامے میں جن انتخابات کی شفافیت مقصود ہے وہ پہلے سے زیادہ مشکوک کر دی گئی ہے اور اِس سلسلے میں حزب اختلاف کی جماعتیں بھی عوام کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف یا پھر اِن کی حمایت یا مخالفت کرنے والا الیکشن کمیشن سب کو اپنے اپنے مفادات کی بجائے اُس قومی مفاد کو پیش نظر رکھنا چاہیئں‘ جو شفاف عام انتخابات سے متعلق ہے اور یہی جمہوریت کی روح ہے کہ اگر انتخابات شفاف نہ ہوئے اور اِن سے متعلق کسی بھی درجے شکوک پائے گئے تو اِس سے وجود میں آنے والے پارلیمانی جمہوری اِدارے کمزور ہوں گے! اِی وی ایمز پر ”سیاسی و غیرسیاسی“ پوائنٹ سکورنگ سے گریز کرنا چاہئے۔ اس میں بھی کوئی دورائے نہیں ہو سکتی کہ آئین پاکستان میں ملک کے تمام ریاستی انتظامی اداروں کے اختیارات اور دائرہئ کار کا تعین موجود ہے اس لئے ہر ریاستی ادارے نے آئین و قانون کے تحت ہی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل‘ کمیشن کے ارکان کی تقرریوں اور اس کے اختیارات و ذمہ داریوں کے معاملہ میں دفعہ 213 سے 221 تک آئین کا الگ باب موجود ہے جس میں الیکشن کمیشن کی خودمختار ادارے کی حیثیت متعین کی گئی ہے۔ آئین کی دفعہ دوسو اٹھارہ اور دوسو اُنیس کے تحت عام انتخابات کے آزادانہ‘ منصفانہ اور قانون کے مطابق شفاف انعقاد اور اسی طرح انتخابی دھاندلیوں کی روک تھام کے انتظامات‘ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابی فہرستوں کی تیاری اور سالانہ بنیادوں پر ان فہرستوں پر نظرثانی کی ذمہ داری پاکستان الیکشن کمیشن کو ہی تفویض کی گئی ہے اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کے معاملہ میں آئین کی دفعہ دوسوبیس کے تحت وفاق اور صوبوں کی تمام انتظامی اتھارٹیز کو الیکشن کمیشن کے ساتھ معاونت کا پابند کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں انتخابی فہرستوں کی تیاری سے شفاف انتخابات کے انعقاد تک الیکشن کمیشن نے ہی انتظامات کرنے ہیں اور اس کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وسائل کی فراہمی سمیت تمام امور میں کمیشن کی معاونت کرنی ہے۔یعنی معاملہ آسان فہم ہے اور کوئی ایسا پہلو نہیں جس کی وضاحت نہیں ہوسکتی۔بس اتفاق رائے کی ضرورت ہے جو اس وقت سب سے اہم ہے۔