ایک تقابلی جائزہ

آ ے دن دنیا میں نت نئے سیاسی اتحاد بن رہے ہیں کل تک جو ممالک آ پس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سمجھے جاتے تھے وہ آج شیرو شکر ہو رہے ہیں تضادات کی یہ سیاست عام آ دمی کی سمجھ سے تو بالاتر ہے۔ ہم پر بار بار اس مقولے کی صداقت ثابت ہو رہی ہے کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا اور یہ کہ اس کے سینے میں دل بھی نہیں ہوتا  مشرقی افریقہ کے ممالک جبوتی سومالیہ اریٹیریا حبشہ اور سوڈان پر مشتمل علاقہ چونکہ نقشہ پر ایک سینگ کی مانند ہے اسے horn of Africa بھی کہا جاتا ہے یہ خطہ اج کل سخت انتشار کا شکار ہے جسطرح سوڈان کو استعماری قوتوں نے ماضی قریب میں دو ٹکڑے کر دیا تھا اب وہی استعماری قوتیں اس خطے کے با قی ماندہ علاقے کو حصے بخرے کرنے کے درپے ہیں ابتدائے آ فرینش سے لے کر آ ج تک مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے اپنے ممالک کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے مختلف تجربات کئے ایک عرصے سے بعض سیاسی رہنما سرمایہ دارانہ نظام کے قصیدے گاتے چلے آ رہے ہیں اور ان کے خیال میں اس نظام معیشت میں عالم انسان کے معاشی مسائل کا حل موجود ہے وہ ذاتی ملکیت کے حق میں ہیں اس کے علی الرعم بعض رہنما اور معاشی ماہرین اس اکانومی کو عام آ دمی کیلئے بہتر تصور کرتے ہیں جس پر ریاست کا کنٹرول ہو ان کے علاوہ ایک طرز فکر یہ بھی ہے کہ جہاں تک عام آ دمی کا تعلق ہے تو اسے مکسڈ اکانومی پر مبنی نظام معیشت ہی معاشی فائدہ پہنچا سکتا ہے ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ چین نے معاشی میدان میں جو حیرت انگیز ترقی کی ہے اس کے پیچھے راز یہ ہے کہ اس نے کیپیٹلزم اور کمیونزم دونوں سے وہ نکات کہ جو عوام دوست اور انسانی فطرت سے ہم آ ہنگ ہیں کو یکجا کر کے پنے لئے مکسڈ اکانومی پر مبنی ایک۔معاشی ماڈل بنا کر اس پر جب سے عمل درآمد شروع کیا ہے اس دن سے اس کے وارے نیارے ہو گئے ہیں یاد رہے کہ جب 1949 میں ماوزے تنگ کی قیادت میں چین میں ایک کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا تو ابتدا میں وہاں چین کی قیادت نے ملک کی معیشت کو سنبھالنے اور اسے پٹری پر چڑھانے کے واسطے وہاں کے سرمایہ داروں پر سختی کی کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے نہ تھے پر بعد میں وہاں مکسڈ اکانومی کا چلن عام کیا گیا پر چین نے مکسڈ اکانومی کو چلانے والوں کو مادر پدر آزادی نہیں دی اس نے ان پر ریاستی کنٹرول ضرور رکھا ہے اور جہاں جہاں اسے کرپشن نظر آئی ہے وہاں وہاں اس نے کرپٹ افراد کو تختہ دار پر لٹکانے سے بھی دریغ نہیں کیا دوسری جانب امریکہ میں اگر کیپیٹلزم پر مبنی اکانومی نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہاں بھی سرمایہ دار کو کھلی چھٹی بالکل نہیں ہے کہ وہ جس طرح بھی چاہے عوام کا معاشی استحصال کر کے بے دریغ دھن بنائے وہاں مسابقتی کمیشن کا ادارہ بہت موثر اور مضبوط ہے اور وہ معاشی جاگیرداریوں یعنی مناپلی اور کارٹیل کو بننے نہیں دیتا کہنے کو تو وطن عزیز میں بھی ایک مسابقتی کمیشن موجود ہے پر کوئی بھی سرمایہ دار اس کی موجودگی محسوس نہیں کر رہا  بلکہ اس کی موجودگی میں کئی تجارتی اداروں نے کئی اشیائے صرف کے شعبوں میں مناپلی اور کارٹیل بنائے  اور عوام کا معاشی استحصال کر رہے ہیں۔ کئی برس پہلے جب مارشل ٹیٹو یوگوسلاویہ کے سر براہ تھے اور یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب یوگوسلاویہ ابھی ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوا تھا تو انہوں نے بھی مکسڈ اکانومی کا اپنے ملک میں کامیاب تجربہ کیا تھا اور ایک تجزیہ نگار نے ان کے اس نظام معیشت کو اس جملے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ نہایت ہی اختصار کے ساتھ یوں پیش کیا تھا کہ یو گوسلاویہ ایک ایسا سوشلسٹ ملک ہے کہ جس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی ہے۔یعنی اعتدال اور میانہ روی وہ پالیسی ہے جسے کسی بھی شعبے میں کامیابی کا پیمانہ سمجھا جا سکتا ہے اور جن ممالک میں ترقی کی ہے انہوں نے اسی اصول کو اپنایا ہے کہ جہاں سے فائدہ ملے اسے حاصل کیا جائے اور نقصان سے بچا جائے سرمایہ دارانہ نظام کے فوائد سے چین استفادہ کر رہا ہے اور اس کے نقصانات سے اس نے اپنے آپ کو بچا کے رکھا ہے اور یہی اس کی کامیابی ہے۔