جب فیشن کا راجہ ہولی کھیلتا ہے تو اس کی رنگین چھینٹیں عام آدمی تو کیا معقول اور طمقراق شخصیات بھی فخر سے اپنے اوپر گرنے دیتی ہیں۔ حالانکہ وہ چاہیں تو اس نئی طرز کو نہ اپنائیں۔ کیونکہ اس میں لاگت بہت زیادہ ہے۔اخراجات کا طومار اورانبارہے۔ صاحبِ حیثیت تو کیا مگر جس کے پاس اپنی ضروریات کو حل کرنے کا بس نہیں وہ کیا کرے۔ اہلِ عقل بھی اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔برائی کے فروغ کیلئے اتناہی کافی ہے کہ دانا و بینا اور اہل ہوش خاموش رہ جائیں۔گذشتہ سالوں سے شادی ہالوں میں بیاہ رچانے کا فیشن چل نکلا ہے۔خوشی کی تقریب تو چھوڑ چالیسویں اور برسیاں بھی شادی ہالوں میں منائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ٹرینڈ ہے جو بس چل نکلے توبندے کا دماغ چل پڑتا ہے اور وہ کام سے نکل جاتا ہے۔نمود و نمائش رہ جاتی ہے۔ایک دوسرے سے زیادہ خرچہ کرکے خاندان کوبتلاناپڑتا ہے۔مشہور شادی ہالوں میں شادیاں کرنے کی کوشش ہے۔اب تو شادی ہالوں کی جب سے چاندی ہونے لگی ہے انتظامیہ نے اپنے شادی ہالوں کے نام بدل دیئے ہیں۔ظاہر کرنامقصود ہے کہ یہاں شادی کی تقریبات ہی نہیں برسیاں بھی منائی جاتی ہیں۔اب تو دو ماہ سے شادیاں بہت روانی اور دھوم دھڑکے ڈھول باجے اور تماشے کے ساتھ ہونے لگی ہیں۔ان پہلے بھی کوئی پروا نہ تھی کہ عالمی وائرس کی موجودگی میں ہاتھ ہولارکھناہے۔پھر نہ تو اب وہ اسی طرح کی کاروباری نقصان کی سوچ سوچتے ہیں۔لاک ڈاؤن میں اگر ہال کے دروازوں پر موٹے موٹے تالے پڑ گئے توانھوں نے بہت احتجاج کیا۔ پھر ان کو چند شرائط کے ساتھ اجازت دی گئی۔ اب تو کووڈ انیس کی شرح صفر سے نیچے چلی گئی ہے۔اب تو وہ جو کورونا اور پھر شادی ہالوں کی بندش کی وجہ سے دم سادھے بیٹھے کہ اولاد کی شادی نہیں کرناجب تک کہ اس عالمی بیماری کا خاتمہ نہ ہو۔ وہ اپنی خوشی کی تقریب سادگی سے انجام دے سکتے تھے۔پھر گھر میں مہمانوں کی کم تعداد کے ساتھ یہ فریضہ اپنے اختتام تک پہنچ جاتا۔مگر انھوں نے جان کر ایسا نہیں کیا۔۔ بعض اپنی سی طبیعت رکھنے والوں کے نزدیک شادی او رخوشی کی دوسری رسومات نمود و نمائش کے اظہار کا بہترین موقع ہوتا ہے ورنہ ان کو خاندان بھر میں اپنی ناک کٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔سو اپنی این و آن بچانے کی غرض سے اور دکھانے کی ضرورت سے وہ ولیمہ اور بارات پر بھی اچھے سے اچھے اور مہنگے سے مہنگے ہال میں بچوں کی شادیوں کے ڈھول بجائیں گے۔یہ تو رواجِ عام کی بات ہے۔جب کوئی رواج چل نکلے تو ہوش مند اور نصیحت کرنے والے بھی اس کے گھن چکر میں سمجھ بوجھ رکھتے ہوئے پھنس جاتے ہیں۔ ان سے بغاوت کرنا تو ہوتا ہی نہیں۔کیونکہ گھر والے اس کی اتنی مخالفت کرتے ہیں کہ وہ ان کے سامنے بے بسی کے ساتھ ہاتھ اٹھا دیتا ہے اور میٹھے بول کے ہتھیار اور نصیحت کے اوزار ان کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ کیوں نہ رکھے کہ زمانے کی ہوا کسی اور رخ پرچل نکلی ہے۔اب اگر دولھا شادی میں بیٹھنے سے انکار کر دے تو پھر کیاکریں گے۔ دولھا کی اپنی مرضی چلتی ہے۔وہ اپنی پسند کا شادی ہال مانگے گا۔ کیونکہ اس نے دوستوں کو دکھانا ہوتا ہے۔پسند کے سوٹ بوٹ پہنے گا اس کے علاوہ بیسیوں مرحلے ہیں جو اس نے اپنی منشا سے انجام دینا ہوتے ہیں۔ماں باپ اس کی چڑھتی ہوئی جوانی اور بعض حالات میں اکلوتی اولاد کی ضد اور شوق کے دریا کے آگے تنکوں تیلوں کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ اسی طرح لڑکی والوں کی طرف بھی اکثر معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے۔وہاں تو زیادہ تر مقابلے کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔کیونکہ دولھا کے گھر سے زیادہ سے زیادہ او راضافی اخراجات کی خبریں آئے دن موصول ہوتی رہتی ہیں۔جس کی وجہ سے لڑکی والے بھی نہ چاہ کر غیرت میں آجاتے ہیں۔ مانگ تانگ کر یہاں وہاں سے قرض اٹھا کر شادی کے چند ایام کو جیسے تیسے ہنسی خوشی گذار دیتے ہیں۔ پھر ان کے ساتھ قرض فرض کے معاملے میں کیا ہوتا ہے یہ وہی جانتے ہیں کہ جن پر گذرتی ہے۔اس وقت شادیوں کا سیزن اپنے عروج پر ہے۔ ہفتہ کے ساتوں دنوں میں کہیں بارات کا انعقاد ہے اور کہیں ولیمہ کی شہنائیاں بجتی ہیں۔کوئی دن نہیں جاتاکہ بارات یا ولیمہ نہ ہو۔ ہر ہال میں او رہر حال میں شادیوں کے ڈھول باجے اپنی سی آواز میں عزیزوں رشتہ داروں کی سماعت کو اپنے پاس زبردستی گروی رکھ رہے ہیں۔گراں خرچ شادی ہالوں اور بیاہ کے اخراجات کے اضافی نرخوں میں دولھا کو چھوڑ کر کبھی اس کی والدہ کی خواہش کو بھی دخل ہوتا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ خاندان میں ناک اونچی رہے۔رشتہ دار اس شادی کو دھوم دھام کے حوالے سے یاد رکھیں۔ اس سے یہ ہوگا دولھا کی امی خاندان بھر میں فخر سے گھوم سکیں گی۔ پھر یہاں تو بات کا ختم ہونا کسی کتاب میں نہیں۔کیونکہ دولھا کے والد کہاں گئے۔ یہ تو مزاج مزاج کا کھیل ہے۔گھرگھر کی الگ الگ جدا جدا کہانی ہے۔پھر ہر ایک فیملی کا جداگانہ قصہ ہے۔کہیں انا ہے کہیں نمائش ہے اور کہیں دکھاوا ہے۔مگر سوال ہے کہ اس کتاب میں کہیں کسی ورق پر غریب آدمی کاذکر بھی ہے۔