تائیوان کی فضائی حدود میں چینی فضائیہ کے جہازوں کی پرواز میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کل کلاں اگر چین تائیوان پر حملہ کر کے اسے چین کا باقاعدہ حصہ بناتا ہے تو کیا امریکہ اس کی مدد کو دوڑے گا اس کا جواب نفی میں آ تا ہے نہ وہ تائیوان کی مدد کو آئے گا اور نہ وہ اندرونی بغاوت کی صورت میں یوکرائن کی موجودہ حکومت کو بچائے گا۔ کیونکہ بایڈن گرم زمین پر پاؤں رکھنے سے کتراتا ہے ورنہ افغانستان میں حکومت اشرف غنی کے ہاتھ سے نہ جاتی اور اسے افغانستان سے نہ بھاگنا پڑتایعنی اگر امریکہ نے اگر اس کو سہارا دیا ہوتا تو اب تک وہ افغانستان پر حکمران رہتے۔اب یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے اتحادیوں کا اب دھیرے دھیرے اس سے اعتماد اٹھ رہا ہے بقول کسے نہ اس کی دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی۔ ادھر بھارت سخت ہاتھ پیر مار رہا ہے کہ اس کی سیاسی تنہاہی ختم ہو۔ آج نہ اسے ایران گھاس ڈال رہا ہے اور نہ افغانستان۔چین جسے کسی زمانے میں وہ اپنا بھائی کہتا تھا آج اس کا شمار اس کے دشمنوں میں ہوتا ہے کسی دور میں ایک لمبے عرصے تک روس اور بھارت ایک دوسرے کا دم بھرتے رہے ہیں آج بھارت امریکہ کے سا تھ کافی خیر وشکر تو ہو گیا ہے پر اس قربت نے اس کا روس سے ملاپ چرا لیا ہے آج روس اپنے تیار کر دہ ملٹری سازو سامان کی فروخت کیلئے دنیا میں منڈیاں تو تلاش کر رہا ہے پر کیا اس نے بھارت پر اپنا میزائل ڈیفنس کا سسٹم فروخت کرنے سے پہلے یہ بھی سوچا ہے کہ نہیں کہ اس سے اس کے چین کے ساتھ تعلقات پر کتنے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں اور کیا روس اس سودے کے ساتھ بھارت پر یہ شرط لگائے گا کہ انہیں چین کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔اب ذرا وطن عزیز سے متعلق چند اہم امور کے بارے میں کچھ تذکرہ ہو جائے۔کورونا وائرس کی نئی شکل اومیکرون کا پھیلاؤ تو بہت تیز ہے گو تا دم تحریر اس بات کا کوئی اندازہ نہیں کہ کیا یہ اتنا مہلک بھی ہے کہ جتنا وہ اس سال کے اوائل میں ڈیلٹا کی شکل میں تھا ایک تھیوری یہ ہے کہ جو وائرس تیزی سے بڑی تعداد میں تقسیم در تقسیم ہو وہ اپنی شدت اور توانائی کھو بیٹھتا ہے اور اپنی موت خود مر جاتا ہے۔ اس بات کا صحیح اندازہ دو چار دنوں میں ہو جائے گا۔ مشہور برطانوی لکھاری ولیم شیکسپیر نے ایک جگہ لکھا کہ جب مصیبتیں آتی ہیں تو وہ بٹالین کی شکل میں آتی ہیں بالفاظ دیگر وہ اوپر نیچے یکے بعد دیگرے آ تی ہیں۔کورونا کے بعد ڈینگی اور اب سموگ نے ملک کے کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کلائمیٹ چینج یعنی موسمی تغیرات کا آج کل میڈیا میں کافی ذکر ہو رہا ہے بہتر ہوگا پہلے یہ جان لیا جائے کہ آخر یہ موسمی تغیرات چیز کیا ہے سائنسدان یہ کہتے ہیں ہیں کچھ گیسز ایسی بھی ہیں کہ وہ اگر زمین پر زیادہ ہوجائیں تو کرہ ارض کی فضا کو کافی ضرر پہنچا سکتی ہیں جیسے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ سورج کی روشنی جب زمین تک پہنچتی ہے تو گیسوں کا یہ مجموعہ روشنی کی اس حدت کو زمین کی فضا سے باہر نکلنے سے روکتا ہے اور یوں زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسے سے گرین ہاؤس ایفیکٹ بھی کہتے ہیں۔دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں تین گناہ سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور اس سے بر ف کے تو دے پگھل رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اضافی پانی سمندروں میں آرہا ہے اور سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو کراچی جیسے عنقریب دنیا کے کئی بڑے بڑے شہر جو سمندر کے کنارے پر واقع ہیں صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں شہروں میں بڑھتی ہوئی حدت سموگ میں بھی اضافے کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے پھیپھڑوں کا سرطان بھی بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اس موسمی تغیرات کی وجہ سے آپ نے ایک بات ضرور نوٹ کی ہوگی کہ موسم سرما کی بارشیں جو ماضی میں نومبر سے فروری تک ہوا کرتی تھیں اب وہ مارچ اور اپریل میں چلی گئی ہیں۔سردیوں کی بارشیں کم اور گرمیوں کی بارشیں بڑھ چکی ہیں اور یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ ماضی میں نہ کوئی گلوبل وارمنگ کے لفظ سے آشنا تھا اور نہ ہی کوئی سموگ کے لفظ کو جانتا تھا اس ضمن میں سائنسدانوں نے اس مرض کا جو علاج تجویز کیا ہے اگرہم اس پر نہ چلے تو ہمیں سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ