حالیہ حکومتی بیان کے مطابق اشیاء کی غیرقانونی نقل و حمل (اسمگلنگ) کی وجہ سے معیشت کو شدید نقصان پہنچتا ہے‘ مہنگائی بڑھنے کی وجہ بھی یہی سمگلنگ ہے۔ اس لئے گندم‘ یوریا‘ چینی‘ آٹا اور پٹرول کی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جار ہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی ایک وجہ بڑے پیمانے پر ملک میں ہونے والی اشیائے ضروریہ کی سمگلنگ بھی ہے جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہونے کے ساتھ ان کے نرخوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ بالخصوص گندم کی سمگلنگ سے ملک بھر میں آٹے کا بحران پیدا ہو جاتا ہے اور عوام کو مہنگے داموں آٹا خریدنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں نے بھی مہنگائی کو ساتویں آسمان پر پہنچایا ہوا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہر دور میں یہ مسئلہ موجود رہا ہے اور اس کے مکمل حل کیلئے کوئی پالیسی ماضی میں اختیار نہیں کی گئی اور اب بھی اس کی کمی محسوس ہورہی ہے۔ایک مرتبہ پھر عوام کو یہی باور کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی وجہ اشیائے ضروریہ کی سمگلنگ ہے۔ حکومت اگر اس بنیادی مسئلے پر شروع سے توجہ دیتی تو اب تک بہت کچھ حاصل ہو چکا ہوتا۔ فی الوقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جس میں حکومت نے اپنے فیصلوں اور اقدامات کا بھی عمل دخل ہے۔ مہنگائی کے محرکات جو بھی ہوں‘ ان کا تدارک کرنا بہرصورت کسی اور کی نہیں بلکہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جب تک مہنگائی میں عوام کو ریلیف نہیں دیا جاتا‘ عوام کو مطمئن کرنا حکومت کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے منی لانڈرنگ اور اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے ہنگامی اقدامات اپنی جگہ خوش آئند ہے لیکن اِس لاقانونیت میں وہ عناصر بھی شریک (ملوث) ہیں جنہیں اِس کی روک تھام کیلئے تعینات کیا گیا ہے اور جب تک سرکاری اہلکاروں کی کارکردگی کا احتساب کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے اُس وقت تک سمگلنگ کی روک تھام یا اِس کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی۔ جو عناصر اشیائے ضروریہ کی سمگلنگ میں ملوث ہیں‘ اُن کے خلاف سخت بیانات تو سننے میں آتے ہیں لیکن اُن کے خلاف سخت کاروائی کیوں عمل میں نہیں لائی جاتی۔ ملک کے ہر شہر میں راتوں رات امیر بننے والوں کی ”کامیابی“ ہی میں عوام کی ”ناکامی“ اور مہنگائی کا عکس مل جائے گا لیکن اگر مہنگائی کا باعث اقدامات (سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی) کی حوصلہ شکنی عملی اقدامات کی صورت کی جائے۔مہنگائی کے بارے میں ایک رائے غیرحکومتی اقتصادی ماہرین کی بھی ہے جو کہتے ہیں کہ ملک میں جاری گیس بحران‘ صنعتی شعبے میں بے چینی اور یورپ میں کورونا وبا کے دوبارہ پھیلنے اور نئی قسم ’اومی کرون‘ آنے کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان سے اپنا سرمایہ کھینچ لیا ہے اور اِس طرح سرمائے کے انخلأ اور مقامی سرمایہ کاروں کی جانب سے منافع کے حصول پر دباؤ بڑھنے اور اس کے ساتھ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے باعث سٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھاؤ کے بعد مندے کی کیفیت ہے۔ ماہرین نے اس امر کی بھی نشاندہی کی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں اور کورونا کی نئی قسم کے خوف سے بیرون ملک اٹھائے جانے والے احتیاطی اقدامات کے باعث دنیا بھر کی مارکیٹیں گراوٹ کا شکار ہیں جس کے منفی اثرات بازار حصص پر مرتب ہوئے ہیں۔ فی الوقت پاکستان کی کرنسی کے مقابل ڈالر کے نرخ عملاً بے قابو ہیں۔ انٹر بنک ڈالر کے نرخ بڑھ رہے ہیں جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بدستور بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ایک تو ڈالر مل نہیں رہا اور جہاں مل بھی رہا ہے تو اِس کی قیمت 180 روپے سے کم نہیں‘ جس کے باعث روپے پر دباؤ ہے۔ بے شک ترقی یافتہ اور مستحکم معیشت رکھنے والے ممالک نے کورونا وبا کا شکار ہونے والے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو امدادی پیکج دیئے اور ان کے واجب الادا قرضوں کی وصولی بھی مؤخر کیا تاہم کورونا پھیلاؤ میں وسعت کے باعث لاک ڈاؤن جیسے احتیاطی اقدامات متاثرہ ممالک کی مستقل مجبوری بن گئے ہیں جبکہ کورونا کی نئی اٹھتی لہر (خوف) نے پاکستان جیسی پہلے ہی نڈھال معیشتوں کی رہی سہی جان بھی نکال دی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ اِس قدر مشکلیں پڑنے کے باوجود بھی مشکلیں آسان نہیں ہو رہیں۔ ”ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام …… ہے اِسی میں مشکلات زندگانی کی کشود (علامہ اقبالؒ)۔“