سموک اور سموگ 

جوں جوں سردی میں اضافہ ہورہا ہے۔صبح سویرے کی دھند بھی نگاہوں کو تکلیف میں مبتلا کر رہی ہے۔پہلے ہم اسی دھند کو بخوشی دیکھتے تھے۔ کہتے کہ ٹھنڈ کا یہ عالم کہ چہار اطراف دھند چھائی ہوئی ہے۔مگر اب آ کر معلوم ہوا کہ شہروں میں یہ صبح سمے کی چھایا کہر میں لپٹی ہوئی سویر نہیں۔یہ تو بیماریوں پر مشتمل دھواں ہے۔ جس کی وجہ سے شہریوں کو گلے اور سانس کی تکلیف زیادہ ہو رہی ہے۔ دمہ کے مریض کے سانسوں کی مالا کے موتی اکھڑنے لگتے ہیں۔وہ بہت زحمت سے سانس لیتے ہیں۔پہلے بھی کارخانے بندہوئے۔دوسال یہی کھیل جاری رہا۔ کارخانوں کے ملازمین نوکریوں سے فارغ کئے گئے۔بیروزگاری جب سے بڑھی تو اب تک اس کی بہتری کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔بلکہ معاملات اور حالات زیادہ دگرگوں ہوئے جاتے ہیں۔یوں ہوئے جاتے ہیں کہ بندہ روٹی کو بھی محتاج ہونے لگا ہے۔ایسے میں ابھی کورونا وائرس سے بھرپور نجات حاصل نہیں ہوئی تو دوسری طرف ایمی کرون نامی زیادہ ہلاکت خیز متعدی بیماری کا اگلا ورژن آنے کو ہے۔ایسے میں تو کارخانے جو ابھی ابھی پھر سے کھلے پھر سے بند نہ ہو جائیں۔ لاک ڈاؤن او رسمارٹ لاک ڈاؤن اور پھر سپاٹ لاک ڈاؤن کا آوازہ بھی ہے۔مگر معاملہ یہاں تک رک تو نہیں جاتا۔ ابھی سموگ نے چاروں اور اپنے خونی پنجے گاڑھنا شروع کر دیئے ہیں۔پنجاب میں تو اس کے ہاتھوں نہ صرف ارضِ پاک کے فرزند پریشان و حیران ہیں بلکہ دنیا بھرمیں لاہور کا نام لیا جا رہاہے جہاں آلودگی دنیا کے شہروں کی بہ نسبت سب سے زیادہ ہے۔پشاورکا حال اگر برا نہیں تو اچھا بھی نہیں پندرہ بیس دنوں سے یہاں بھی دھند بلکہ نہیں سموگ نے اپنا گھناؤنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ جیسے گرمیوں کے دنوں میں ہمارے معصوم بچے گندی نہروں کے فلش والے پانی میں نہاتے ہیں اور خوشی خوشی گھر آتے ہیں۔اسی طرح آ ج کے سموگ کو ہم دھند سمجھ کر شاداں ہو جاتے ہیں کہ لو سردی آگئی۔ مگر اس یخی کے ساتھ ہماری شامت بھی آگئی یہ کسی کو نظر نہیں آتا۔سموک تو دھوئیں کو کہتے ہیں۔مگر وہ دھند جس میں گیسیں اور دھوئیں مکس ہو ں وہ سموگ کہلاتی ہے۔ جو انسان کی سانس کے لئے زہر ہے۔جس کا اس وقت صبح دم کی فضااور آب وہوا پر راج ہے۔ہم گاڑیوں کا جو دھواں چھوڑتے ہیں زیادہ آبادی کے کارن پاؤں کی دھول جو اٹھتی ہے یہ سب کہیں ضائع نہیں جاتے۔بلکہ ہوا میں غائب ہو جاتے ہیں۔ پھر دن بھر توسورج کی تپش کے کارن نظر میں نہیں آتے۔لیکن جب سویرے سویرے سورج آشیانہ مشرق سے ابھی نمودا ر نہیں ہوا ہوتا تو فضا ساری کی ساری اس نام نہاد دھند میں لپٹی ہوتی ہے۔ دھند کے ساتھ جب گیسیں او ردھوئیں کارخانوں سے نکلیں یا کہیں سے بھی اخراج ہوں اس میں مکس ہو جاتے ہیں۔ پھریہی دھند شہد کے بجائے زہر بن جاتی ہے۔بلکہ لاہور میں تو شہریوں کو دفتر جانے سے بھی روکاگیا ہے۔کم حاضری کو اچھا سمجھا گیا ہے۔کہا گیا ہے کہ آدھے لوگ گھر میں بیٹھ کر کام کریں۔ پھر سکولوں کو بند کرنے کا بھی پیغام ملاہے۔ ہماری سرزمین ان آفات و مہمات سے آزاد ہی نہیں ہو رہی۔کبھی کیا او رکبھی کون سا تیر اس ڈھال پر متصادم ہونے کو تیار ہوتا ہے۔اب کون سا وار روکیں کون سا وار سینے کی اس ڈھال پر کھائیں۔میں تو کہتا ہو ں ہمارے ہاں بھی کہیں اینٹی سموگ سکواڈ تشکیل نہ دے دیا جائے۔ جس کا مقصد کارخانوں کا معائنہ کر کے وہاں دھوئیں کے اخراج کو سامنے رکھ کر ان ملوں او رفرموں کی بندش کا بندوبست کریں۔ پھر جو کارخانے بند ہوں گے ان کے مزدور پھر سے بیروزگار ہو جائیں گے۔ آگے کون سا روزگار ہے کاروبار ہے۔سب کچھ تو کورونا کے اژدہے کی آنتوں میں جا کر بیکار ہے۔اب یہ سموگ کا نیا مہماتی سلسلہ رہتا تھا۔ سموگ کس نے لایاکس نے سازش کی۔یہ صدائیں بھی سن سکتے ہیں۔مگر اس کا تعلق سیاست سے ہو۔ یہ تو قدرتی چیز ہے۔جس کے ساتھ ہمارے اپنے ماحول کے دھوؤں کی ملاوٹ ہے۔پشاور اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں بھی یہی سموگ اپنا ہلاکت خیز رقص کرنے میں مصروف ہے۔مگر دوسرے شہروں کی بہ نسبت یہاں اس کی شرح بہت کم ہے۔ شہری علاقوں کے ہمارے چھوڑے ہوئے چمنیوں سے نکلتے اور رکشوں میں سے برآمدہوتے دھوئیں جاتے تو کہیں بھی نہیں۔ دھند میں لپٹ کر شہر کے آسمان پر چھا جاتے ہیں۔ شہر کی حدود سے باہراسی سموگ کو اگر دھند کہیں تو کہہ سکتے ہیں۔ جہاں گاؤں کی فضا ہے۔مگر شہر میں جہاں سہولیات ہیں وہاں یہ آفاتِ زمانہ بھی شہر کے ماحول پرچھا کر شہر کو آلودہ کررہی ہے۔مگر اس کاعلاج مصنوعی بارش ہے۔کیونکہ بارشوں کا سنا ہے کہ فروری میں ہوں گی۔مگر تب تک تو پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی گذر چکا ہوگا۔  ملک میں تو ماہر لوگ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔سوچ میں ہیں کہ سموگ کا کیا کریں۔درخت لگانے کی باتیں تو پرانی ہو چکی ہے۔ہم تودرخت کاٹتے بھی نہیں ہیں ثابت اکھاڑ کر زمین پر دھر دیتے ہیں۔جب شجر کاری مہم کا کہا جاتا ہے توفوٹو شوٹ کیلئے تصویریں نکالتے ہیں۔یہ تصویریں شائع ہوتی ہیں او ربات آئی گئی ہو جاتی ہے۔درختو ں کا زیادہ ہونا سموگ کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے مگر کس کو سمجھائیں۔