چین نے دنیا بھر میں سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے ناموں سے جو ترقیاتی منصوبے شروع کر رکھے ہیں ان سے چین کی جہاں عالمی سطح پر ساکھ بڑھی ہے۔وہاں اس کے اثر و رسوخ میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے چین کی بڑھتی ہوئی معیشت نے امریکہ اور اس کے حواری ممالک کے کیمپ میں ایک کھلبلی سی مچا دی ہے۔چنانچہ چین کے اس اثر کو زائل کرنے کیلئے یورپی یونین نے بھی اپنی سطح پر گلوبل گیٹ وے کے نام سے ایک بین الاقوامی ترقیاتی تشکیل دیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری چین اور اس کے ہم خیال ممالک کی معاشی ترقی سے کس قدر خائف ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ ماضی قریب میں ایک لمبے عرصے تک امریکہ اور کمیونسٹوں کے درمیاں جو لمبی سیاسی جنگ لڑی گئی تھی اس کی صرف شکل اور رنگ ہی بدلا ہے اور اب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے یہ دو متحارب نظریاتی اور سیاسی گروپس معاشی جنگ کا سہارا لیں گے۔ ایک دور تھا جب اگر ایک جانب نیٹو جیسے عسکری نوعیت کے اتحاد کا غلغلہ تھا تو اس کے مد مقابل سویت یونین نے وارسا پیکٹ کو لا کھڑا کر دیا تھا آج ان دونوں سیاسی دھڑوں کی حکمت عملی میں واضح فرق دکھائی دے رہا ہے اور اب یہ دونوں گروپ معاشی طور ہر ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر بھارت روس سے ڈیفنس میزائل سسٹم خرید تا ہے تو کیا اس عمل پر امریکہ بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگائے گا اور اگر وہ ایسا کرتاہے تو پھر بھارت کی پوزیشن پر کیا یہ شعر صادق نہ ہو گا کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ چین پہلے سے ہی بھارت سے نالاں ہے اور اقتصادی پاندیوں کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکہ بھی اس سے خفا ہو گیا ہے۔ نہ جانے وہ ارسطو کون ہے جس کے مشورے مودی سرکار کو سفارتی محاذ پر تنہا کرتے جا رہے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جس ملک نے اپنا وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈالا اس نے اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالا، کیونکہ امریکہ کسی بھی ملک کو مشکل میں چھوڑنے کا ٹریک ریکارڈ رکھتا ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات اس رویے کی بہترین مثال ہے۔ کہ پاکستان نے ہر محاذ پر ماضی میں امریکہ کا ساتھ دیا تاہم اس نے الٹا پاکستان پر ہی پابندیاں لگوا کر اس کی معاشی نقصان سے دوچار کئے رکھا۔ اب بھارت اگر امریکہ کا ساتھ دے رہاہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ اسے چین اور روس کے ساتھ مقابلے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔ جو مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے،جہاں تک چین کا مقابلہ کرنے کی بھارتی صلاحیت کا تعلق ہے تو و ہ اس وقت واضح طور پر سامنے آئی جب گلوان کی وادی میں اس کے فوجی چینی فوجیوں کے ہاتھوں بری طرح پٹے۔ماضی شاہد ہے کہ امریکہ کسی بھی ملک کو بنیادی ترقی نہیں کرنے دیتا نہ کسی ملک معاشی استحکام کے منصوبے پروان چڑھاتا ہے بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی وطن کے وسائل سے خود تو استفادہ کرے تاہم اسے اپنا محتاج رکھے۔ جبکہ اس کے برعکس چین جس ملک کے ساتھ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کرتا ہے تو اولین مرحلے میں وہاں اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ پاکستان میں سی پیک منصوبہ اس کی بہترین مثال ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ