سانحہ سیالکوٹ: عدم برداشت

سیالکوٹ میں ملبوسات تیار کرنے والی صنعت (راجکو فیکٹری) کے سری لنکن منتظم (پچاس سالہ پریانتھا کمارا) سال 2012ء سے بطور منیجر وابستہ تھے اور نظم و ضبط کے معاملے میں کام چوروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کیلئے مشہور تھے۔ تین دسمبر کی صبح گیارہ بجے ادارہ جاتی کاروائی سے متاثرہ ملازمین نے اُن کے سخت فیصلوں کے خلاف احتجاج کیا جو بعدازاں اشتعال کے سبب جان لیوا حملے میں تبدیل ہو گیا لیکن صرف یہی نہیں بلکہ فیکٹری ملازمین (ہجوم) اُنہیں قتل کرنے کے بعد لاش گھسیٹ کر جی ٹی روڈ پر لے آئے اور لاش کو آگ لگا دی۔ مشتعل ہجوم نے سیالکوٹ وزیرآباد روڈ بھی بلاک کر دی اور نعرہ بازی کرتے رہے‘ جس کی وجہ سے پولیس بروقت موقع پر نہ پہنچ سکی تاہم جب وزیراعظم عمران خان نے اس واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم دیا اور اپنے ٹویٹر پیغام میں اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ پاکستان کیلئے شرمندگی کا باعث بنا ہے اور وہ خود تحقیقات کی نگرانی کریں گے تو اِس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دوڑیں لگ گئیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے انسپکٹر جنرل پنجاب سے رپورٹ طلب کی جبکہ پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے واقعہ کی ہر پہلو سے تحقیقات کرنے اُور اڑتالیس گھنٹوں میں رپورٹ منظرعام پر لانے کا وعدہ کیا تاہم مذکورہ رپورٹ اِس دورانئے میں نہیں آ سکی!سیالکوٹ سانحے پر غم و غصہ فطری ردعمل ہے۔ اعلیٰ حکومتی شخصیات‘ ریاستی اداروں کے سربراہان اور سیاسی و دینی جماعتوں کے قائدین سمیت ہر مکتبہئ زندگی کی جانب سے اِس کی مذمت بھی عدم برداشت سے جڑے مسئلے کا حل نہیں‘ جس کی موجودگی سے مسلسل انکار کیا جاتا ہے لیکن یہاں وہاں ایسے واقعات رونما ہونا معمول بن چکا ہے۔ کسی مشتعل ہجوم کی جانب سے کسی بھی حوالے سے قانون ہاتھ میں لینا اور خود ہی عدالت لگا کر خود ہی سزا دینا کسی بھی معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت سانحہ سیالکوٹ معاشرے میں پھیلتے عدم برداشت کا عکاس ہے جنہیں ملک کا تشخص خراب کرنے کے درپے عناصر کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے اور ملک کے باہر اس ارضِ وطن ہی نہیں‘ دین اسلام کے بارے میں بھی ان عناصر کو مجہول زہریلا پراپیگنڈا کرنے کا موقع مل جاتا ہے جو اپنے ایجنڈے کے تحت پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کرنے اور اس پر اقتصادی پابندیوں سمیت مختلف پابندیاں لگوانے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ سانحہئ سیالکوٹ کے اسباب اور پس پردہ محرکات کے بارے میں تو انکوائری رپورٹ کے ذریعہ ہی آگاہی ہو سکے گی تاہم اس سے پہلے ہی مخصوص ذہنیت کے تحت ملک سے باہر پاکستان کے بارے میں پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بعض عناصر زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ردعمل میں واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سیالکوٹ کی متعلقہ فیکٹری کے مالک کا کہنا ہے کہ پریانتھا کمارا کے حوالے سے کسی قسم کی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی تاہم انہیں اس واقعہ کی اس وقت اطلاع ملی جب پریانتھا ہجوم کے ہتھے چڑھ چکا تھا۔ اس تناظر میں یہ معاملہ تحقیق طلب ہے کہ فیکٹری کے تمام مزدور فوری طور پر کیسے اشتعال میں آئے اور پھر انہیں فیکٹری کے باہر سے کیسے کمک حاصل ہوئی جو نعرے لگاتے ہوئے فیکٹری کے اندر گھسے اور فیکٹری منیجر کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ ابتدائی تحقیقات و اطلاعات کے مطابق سانحہئ سیالکوٹ ”ذاتی انتقام“ کا شاخسانہ ہے۔ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے سیالکوٹ کی کاروباری برادری نے فیکٹریوں میں پروڈکشن آپریشنز کے لئے نئے قواعد و ضوابط معیاری آپریٹنگ طریقہ کار یعنی ایس او پیز وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر ملکی شہریوں پر مشتمل عملے والی برآمد کنندہ کمپنیوں کو کہا گیا ہے کہ غیر ملکیوں کی حفاظت کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کے ساتھ سیکورٹی گارڈز کو مستقبل میں ایسی کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تربیت دی جائے۔ سیالکوٹ کے تاجر رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس چار دسمبر کے روز سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دفتر میں ہوا‘ جس میں اجلاس کے شرکا فکر مند نظر آئے کہ وہ دنیا بھر میں خاص طور پر مغربی ممالک میں سری لنکن منیجر کی ہلاکت اور بعدازاں لاش کی بے حرمتی جیسی غیرانسانی سلوک کی وضاحت کیسے کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیالکوٹ کی برآمدی صنعت پر سری لنکن منیجر کے قتل سے لگنے والا داغ دھلنے میں کافی وقت لگے گا کیونکہ پاکستان کا نام جس ’عدم برداشت‘ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے اُس کو ثابت کرنے کے لئے واقعات کی کڑیاں ملائی جا رہی ہیں۔ صنعتوں کے ملکی یا غیرملکی منتظمین کی حفاظت کے ساتھ معاشرے میں موجود ’عدم برداشت‘ پر قابو پانے کیلئے بھی سوچ بچار اور عملی اقدامات ہونا چاہیئں۔