ساتوں دن کی مصروفیات

صاحبان آج کل ہماری مصروفیات کچھ اوربڑھ گئی ہیں۔رونا تھا کہ وقت نہیں ملتا۔مگرجوں سردی نے اپنے شامیانے لگانے کو زمین میں لکڑی کے بڑے کیل ٹھونکنے شروع کئے ہمیں بالکل بھی فرصت نہیں رہی۔کون سی شادی پہ جائیں کون سی چھوڑ یں۔کسی ایک کو چن لینا مشکل ہوا جاتا ہے۔کہیں ولیمہ تو کہیں بارات۔ ایک دن دو ولیمے۔بلکہ ایک ہی روز بارات بھی اور ولیمہ بھی۔ایک تقریب بہت زیادہ فاصلے پر ہے تودوسری قریب۔ایک جی ٹی روڈ کے شادی ہال میں تو دوسری یونیورسٹی کے گیدرنگ ہال میں۔کسی بیاہ میں صدر جانا کسی کے لئے اندرونِ شہر خوار ہونا پڑتا ہے۔کہیں ولیمہ اپنے وقت پر شروع ہو جاتا ہے۔کہیں کارڈ پر لکھے وقت کے بجائے ڈیڑھ گھنٹے کے بعددولھااور اس کے گھر والے ہال تشریف لاتے ہیں۔ہم صدر پشاور کلب سے نکلے تو سٹی گل بہار ایک ولیمہ میں جا دھمکے۔ کیونکہ شادی کارڈ پر سات بجے لکھا تھا اور ہم وہا ں آٹھ بجے پہنچے۔سوچا لیٹ ہوگئے۔فائدہ تھا کہ ولیمہ کا گیدرنگ ہال راستے میں پڑتا تھا۔ خیال آیا کہ ولیمہ نوشِ جاں کریں گے تو پھر ایک ہی بار فراغت ہوگی گھر پہنچیں گے۔ سردیاں ہیں پھر کون دوبارہ نکلتا ہے۔اگر گھر کے باہر سو کام ہوتے ہیں توگھر میں بھی سو جھنجٹ ہوتے ہیں۔ہم ٹی وی سٹوڈیو سے واپس آرہے تھے۔ جب شادی ہال پہنچے تو وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔اجاڑ ویراں۔ہال کے سناٹے کا منظر دیکھ کر اچانک خیال آیا ہم نے بہت دیر کر دی۔ولیمہ کی تقریب اختتام ہو چکی۔پھر کہا نہیں ہم غلط شادی ہال میں آ گئے۔کیونکہ ساتھ والے ہال میں لڑیاں جگمگا رہی تھیں۔سواپنی چاند گاڑی کو وہاں موڑ دیا۔ جس پر ہم بمعہ اہل و عیال سوار تھے۔بلکہ یہ چاند گاڑی سے زیادہ لڑکھڑاتا ڈگمگاتا کھڑ کھڑاتا پرانے ماڈل کا اولڈ فیشن ٹرک تھا جو مشکلوں سے اپنی منزل پر پہنچتا ہے۔کہتے ہیں یہ غریبوں کی سواری ہے۔ جی ہاں موٹر سائیکل کی بات کر رہاہوں۔ مگر اس شرط پر کہ ہماری طرح قسطوں کی ہو۔ اگر نقد لی ہو تو پھرامیروں کی سواری ہے۔دوسرے شادی ہال کے گیٹ پر پہنچے تو معلوم ہوا ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ ہم نے اسی شادی ہال جانا تھا جس کو ابھی ابھی پیچھے چھوڑآئے تھے۔ سو دوبارہ اپنے لوہے کے گھوڑے کی باگیں کھینچیں اور اس کو یوٹرن پر دھکیل دیا۔ وہا ں پہنچ کر گیٹ کیپر کو دولھا کا نام بتلا کرپوچھا یہا ں ان کی شادی ہے۔انھوں نے کہا جی جی یہی جگہ ہے۔ان کی جی جی کے ساتھ ہی ہم صورتِ حال کی نزاکت کے کھدرے پن تک پہنچ گئے۔ صاحبان قدردان وہا ں تو مہمان کیا خود شادی کے گھر والے او ردلھا تک موجود نہ تھا۔گھر جاتے تو واپس آنا مشکل اور بیٹھ جاتے تو پیٹ کے دوزخ کو جلد از جلد بھرنا مشکل تھا۔  اگر اس شادی میں پہلے آنے کا میڈل ہوتا وہ ایوارڈ ہم نے حاصل کرنا تھا۔مردوں میں ما بدولت اور خواتین میں ہماری بیگم صاحبہ۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ انتظار کی آگ میں خود کو جلانے کے سوا چارہ کیا تھا۔آنے والے ڈھیلے ڈھالے آتے آتے آتے گئے۔مجھے کہنا ہے جس قوم میں وقت کی پابندی کی رسم اٹھا دی جائے اس قوم کا تذکرہ بھی اٹھوا دیا جاتا ہے۔بلکہ میں کہوں ہم میں وقت کی پابندی کی رسم تھی ہی کب جو اٹھا دی جائے۔ یہ کسی بھی قوم کے زوال کی پہلی نشانی ہوا کرتی ہے۔سورج روزانہ اپنے وقت مقررہ پر صبح سویرے سرِ آسماں طلوع ہوتا ہے ایک سیکنڈ کی بھی دیری نہیں لگاتا۔ پھر شام کو اس کے غروب ہونے کا سال بھر کے کیلنڈر میں جو وقت خاص ہے اسی لمحے اس کو مغرب کے افق میں منہ پر سیاہ نقاب لے کر روپوش ہونا ہوتا ہے۔بیس سال بعد کے پہلے دن بھی سورج نکلنے ڈوبنے کا وقت مقرر ہے۔پرندے تڑکے ہی اٹھ جاتے ہیں۔اس وقت انسان جو مخلوقات میں اشرف ہے دن چڑھے بسترِ خواب پر محوِ آرام رہتا ہے۔ اسی تحریر کے سٹیج پر قرارداد پیش ہے کہ خدارا شادی کارڈ پر جو وقت لکھا جائے اس کو نبھایا جائے۔ کیونکہ بعض حالات میں اسی دن اسی رات دوسرے ولیمے پر بھی جاناہوتا ہے۔وہاں بھی کھانے پینے کے میدان میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ڈاکٹروں کی رائے جو بھی ہو اس کا بہ سرو چشم صد احترام۔مگر کیا کریں ہر قسم کے پُر تعیش کھانے سامنے چن دیئے گئے ہوں اور روز ہوں توبندہ شادیوں میں کب تک نہیں کھائے گا۔کب تک دوسروں کو مرغن کھانے نوشِ جاں کرتے ہوئے دیکھے گا۔آخر بد پرہیزی کو گلے لگانا ہوتا ہے۔کیونکہ شادی والوں کو ہر مہمان کی بیماری کے بارے میں پتا تونہیں ہوتا۔پھر اگر معلوم ہو بھی تو شادی ہالوں میں پرہیزی کھانے مہمانوں کو نہیں کھلائے جاتے۔ مہمانوں کو بلانے والو ں کا ذوق و شوق ہوتا ہے کہ ان کو مہنگا سے مہنگا اور اچھے سے اچھا خوراکہ کھلایا جائے۔ اب یہ کھانے والے تک ہے کہ اس کو اپنے اوپر کس حد تک کنٹرول حاصل ہے۔