آہستہ آہستہ خراماں خراماں کبھی چلتے کبھی رکتے کبھی دائیں کبھی بائیں۔سمجھ میں نہیں آتا راستہ کیسے نکالیں۔ شاید ہماری قسمت میں یہی لکھ دیا گیا ہے کہ ہم نے اپنی راہ نہیں نکالنی پیچھے پیچھے چلنا ہے۔۔یہ تو ایک اشارہ ہے۔ایک جزو ہے جس میں کُل کو دیکھاجاسکتا ہے۔مگر امید پہ تو دنیا قائم ہے۔شاید ہمیں بھی کوئی رستہ مل جائے۔ شاید آگے کوئی چورستہ نکل آئے۔تاکہ ہم اپنا سا راستہ اپنا لیں اور کہیں ادھر اُدھر موڑ کاٹ کر آگے کو لپک جائیں۔ ابتدائیہ طویل ہونے لگا ہے۔پھر گھمبیر ہونے لگا ہے۔آپ سمجھیں گے کہ یہ نابکار پھر کوئی فلسفہ جھاڑنے لگا ہے۔پھر ذہن کے اوپر سے ہوتی ہوئی کوئی بغیر نکتہ اور بنا نقطے کے بوجھل بات چھیڑنے والاہے۔یہ لفظوں کے بھاری بھرکم آہستہ رفتار پھر کند تیر چلانے والا ہے۔مگر ایسانہیں۔میں عام سا مسئلہ بیان کرنے چلا ہوں۔ سیاسی نمائندوں کی طرح تقریر جھاڑنا ہمارا کام نہیں۔غور فرمائیں تنگ راستہ ہے۔اب تو شہر کے ان راستوں میں بھاری ٹرک گھس آئے ہیں۔اس رستے پر ٹرک احتیاط کے قدم اٹھاتا رش کے عالم میں آگے کو سِرک رہا ہے۔اس کو ڈر ہے کہ کہیں کسی کی گاڑی کو دھکا نہ لگ جائے پھر کوئی نیچے نہ آجائے اور کسی بندہ کو ہتھوڑی اور میخ کی طرح ٹھوک نہ دے۔اتنی ہی سڑک کی چوڑائی ہے جتنا کہ مشکل سے ٹرک کا سائزہے۔جیسے پروٹوکول دینا ہو کہ بہت شکریہ آپ رات کے دیئے ہوئے ٹائم سے قبل ہی شہری حدود میں گھس آئے ہیں۔ اس لئے اس کے پیچھے پیچھے گاڑیاں بھی چیونٹیوں کی طرح رینگ رہی ہیں۔ان کو راستہ نہ دائیں سے ملے اور نہ بائیں سے ملے گا۔ جب تلک کہ آگے کوئی کھلا موڑ نہ آئے کشادہ چوک نہ گزرے۔اب کے تو بائیک سوار بھی نئے گرفتار پرندے کی طرح پنجرہ کی تیلیوں سے سر مار رہے ہوں۔ کیونکہ راستہ نظر آئے گا تو نکلیں گے۔ اب شہر کا اندرون ہے۔ یہ کوئی بڑی سڑک یا شاہراہ نہیں کہ جہاں فٹ پاتھ ہوں۔ جس پر یہ دوپایوں کے گھڑ سوار چڑھ کر تیز طرار تیر کی طرح بس اپنا راستہ ناپتے جائیں۔صاحبان ٹرکوں کا یہ چلن عام ہو چکا ہے۔شہر کی حدود کے اندر داخلہ کا ان کا اپنا ٹائم ہے۔اس سے پہلے ان کو اندر گھس کر کاروباری مارکیٹوں کی طرف پہنچنے کی ممانعت ہے۔یہ قطار بنا کر شہر کے باہر اپنے وقت پر اندر جانے کیلئے کھڑے رہتے ہیں۔مگر بارہا اب ان ٹرکوں کو وقت سے پہلے شہر میں دیکھا جانے لگا ہے۔ مگر فراز کی طرح ”یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا۔ یہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے“۔جو شہری دیکھتے ہیں۔کمال یہ کہ وہ احتجاج نہیں کرتے۔ٹریفک سارجنٹ سے رک کر پوچھو کہ ان ٹرکوں کے شہرمیں داخل ہونے کا کیاٹائم ہے۔اس پر وہ بات کو گول کردیتے ہیں۔ بلکہ اس وقت ان کی فرصت کے دامن میں گنجائش نہیں کہ وہ آپ سے ایک لحظہ کھڑے ہو کر بات کریں۔پھر آپ کی بات کا جواب ایک لفظ ہی میں دیں مگر دیں تو سہی۔ا س کے لئے بھی ان کو شاید کوئی رنگین کاغذ والی درخواست دینا پڑے۔صاحبان دن دوپہر شہر اندرٹرکوں کو دیکھا گیا ہے۔یہ وہ مخلوق نہیں جو نظر نہ آتی ہو۔ خاص جس گلی میں سکول ہے۔وہاں بچے چھٹی کے وقت نکل رہے ہیں۔ بچے ایک دوسرے سے اٹھکیلیا ں کر رہے ہیں۔ بعض بچوں کی لڑائیاں کلاس ہی میں چھٹی کے بعد سڑک پرطے پا چکی ہوتی ہیں۔وہ عین سڑک کے بیچ اپنی معرکہ آرائی میں مصروف ہوتے ہیں۔مگر ان کی یہ کشاکش جلدی ختم بھی ہو جاتی ہے۔کیونکہ اچانک پیچھے سے ٹرک کا ہارن بجتا ہے۔وہاں پاس کے دکاندار ان بچوں کو برا بھلا کہہ کر وہاں سے ہٹا دیتے ہیں۔یوں ایک دوسرے سے الگ ہونے پر مجبورکر دیتے ہیں۔ پھر معلوم نہیں اگلے موڑ پروہ ایک دوسرے دوبارہ گھتم گھتا ہوتے ہیں کہ نہیں۔مگر یہ بھی ان ٹرک والوں کی مہربانی ہے کہ کم از کم ان کااتنا فائدہ ہے کہ یہ ان لڑائیوں میں بیچ بچاؤ کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔شہر کی سڑکو ں پر عین دوپہر کو سکول کی بڑی اور فل سائز کی بسیں ہی کافی نہ تھیں کہ قبضہ کرکے تیز رفتاری سے چلتی جائیں اور ہارن پہ ہارن بجائیں۔ تیز اس لئے کہ سکولوں کے بچوں کو وقت پر گھر پہنچانااور بھیڑ بھاڑ میں منزل پر پہنچنا ہے۔پھر یہ بھی کہ ان مختلف رنگوں کی بسوں نے دوسرے پھیرے کے لئے سکول کے گیٹ پر بھی آنا ہے۔پھر سکول بس کا تو کیا ذکر تیزی کسی بھی میدان میں ہو بے ترتیب ہو تو یہ کسی طرح روا نہیں جائز نہیں۔شہر کا ماحول روز بروز خراب سے خراب تر ہو رہا ہے۔کورونا میں شہرکے اس ماحول میں ٹھہراؤ تھا۔سڑکیں کچھ نہ کچھ گنجائش رکھتی تھیں۔کاش دوبارہ یہ وائرس نہ آئے۔ مگر جب سے اس وائرس کی خوفناک آوازیں آنابندہوئی ہیں یہ شہری رش تو اس طرح چھلانگ لگا کر سڑکوں پر آئی ہے کہ جیسے کوئی گائے جس کو باندھا ہوا اور سارا دن وہ اپنی رسی کے ساتھ زمین میں ٹھونکے لوہے کے قلعے سے زور کرے۔ مگر جب خود بخود کھل جائے تو اتنا ہی زور سے بھاگے کہ راہ میں آنے والوں کی دوڑیں لگ جائیں۔ پھر اس طرح کہ جس کو جہاں پناہ حاصل ہو وہیں مقیم ہو۔