عوامی جمہوریت

ملکی اور بین الاقوامی سیاسی اُفق پر تبدیلی کے بادل بڑی تیزی سے گہرے اور سیاہ ہوتے جا رہے ہیں اگلے روز لاہور میں قومی اسمبلی کی ایک خالی نشست کیلئے ضمنی انتخابات ہوئے۔ یہ سیٹ نواز لیگ کے ایم این اے پرویز ملک کی وفات کی وجہ سے خالی ہوئی تھی گو یہ ضمنی انتخابات نواز لیگ نے جیت تو لئے پر اس کے ووٹوں میں واضح کمی دکھائی نظر آئی اس کے مدمقابل پیپلز پارٹی کا امیدوار ہار تو گیا پر بحیثیت مجموعی اس حلقے میں پیپلز پارٹی نے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ اس ضمنی انتخابات میں نواز لیگ کو 2018 کے الیکشن کے مقابلے میں 42 ہزار آٹھ سو اٹھاسی ووٹ کم ملے جبکہ اس کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 2018 کے الیکشن کے مقابلے میں 26 ہزار 728 ووٹ زیادہ حاصل کئے بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ لاہور میں پیپلز پارٹی نے اپنے ووٹ بینک کے میں کافی حد تک اضافہ کر لیا ہے۔ اس الیکشن میں پی ٹی آئی نے حصہ نہیں لیا اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں جو سیاسی پارٹی بھی قومی اسمبلی کے الیکشن میں زیادہ نشستیں جیتتی ہے وہی مرکز میں اپنی حکومت بنا سکتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کچھ عرصے پہلے تک یا تو اس صوبے میں میں پیپلز پارٹی کا زور تھا اور یا پھر نواز لیگ کا۔2018  کے الیکشن میں پی ٹی آئی بھی پنجاب میں مضبوط سیاسی پارٹی کے روپ میں اُبھری تھی مندرجہ بالا ضمنی الیکشن میں اگر پی ٹی آئی کا امیدوار بھی حصہ لے لیتا تو اس سے کم از کم سیاسی تجزیہ کاروں کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا کہ سر دست پنجاب میں عوام کا موڈ کیا ہے۔ اس سے کم از کم قمر زمان کائرہ صاحب کو بھی یہ موقع نہ ملتا کہ وہ یہ کہہ سکتے کہ حکمران جماعت نے ضمنی الیکشن سے فرار کا راستہ اختیار کیا۔ پارلیمانی جمہوریتوں میں حکمران پارٹیاں ضمنی الیکشن کے نتائج سے بھی بہت کچھ اخذ کرتی ہیں اور ان کی روشنی میں اپنا آئندہ لائحہ عمل طے کرتی ہیں وطن عزیز میں گو کہ ہمارے سیاست دان پارلیمانی جمہوریت کی مدح سرائی تو بہت کرتے ہیں پر ان کے افعال ان کے فرمودات سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔دوسرا ہم معاملہ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کا ہے جس کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ گوادر میں جو ترقیاتی کام ہو رہا ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو نوکریاں فراہم کرنے کی ازحد ضرورت ہے تاکہ وہ اس منصوبے کے سٹیک ہولڈرز بن جائیں۔ اس قسم کی اطلاعات آ رہی ہیں کہ ملازمتوں کے معاملے میں مقامی لوگوں کو کچھ شکایات ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے۔ اگلے روز چین کے ایک سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے ایک آرٹیکل میں یہ ثابت کیا ہے کہ کئی ملکوں میں خصوصا ًمغربی ممالک میں پارلیمانی جمہوریت کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں پر درحقیقت وہاں پر رائج جو نام نہاد جمہوریتیں ہیں ان کا بنیادی مقصد اشرافیہ اور سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینا ہے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق ویسٹرن جمہوریت مشرقی ممالک کے مزاج یا genius کے مطابق نہیں۔گلوبل ٹائمز کے مطابق اگر دنیا کے کسی ملک میں واقعی عوامی جمہوریت ہے تو وہ صرف چین میں ہی ہے کہ جہاں انیس سو انچاس لے کر اب تک چینیوں کی واحد نمائندہ جماعت کمیونسٹ پارٹی بر سر اقتدارہے کہ جس میں باقاعدہ ریگولر الیکشن کے ذریعے چین کے معاشرے کے تمام طبقوں سے نمائندے چنے جاتے ہیں۔یہ اس جمہوری نظام کا ہی توکرشمہ ہے کہ آج دنیا میں چین نے تھوڑے سے ہی عرصے میں یعنی 1949  سے لے کر اب تک زندگی کے ہر شعبے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ جس کی مثال ان نام نہاد جمہوری ممالک میں نہیں ملتی جو دن رات جمہوری اقدار کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔