ایران اسرائیل جنگ کا خطرہ؟

خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسرائیل عن قریب ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرسکتا ہے جس سے خطے میں جنگ شروع ہوسکتی ہے۔ اس خدشے کی وجوہات کیا ہیں، حملے کے امکانات کتنے ہیں اور اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟ویانا میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ایران کے جوہری پروگرام اور 2005 کے معاہدے کی بحالی پر مذاکرات جاری ہیں مگر ابھی تک پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ادھر اسرائیل ایران کی سویلین جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائل پروگرام کی وجہ سے انتہائی خوفزدہ ہے اور  ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے کو خارج از مکان قرار نہیں دے رہا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ  ویانا میں جاری مذاکرات فوری طور پر ختم کر دیں اور اس پر یہ واضح کر دیں کہ وہ یورینیم کی افزودگی اور مذاکرات بیک وقت جاری نہیں رکھ سکتا۔ نومبر کے آخر میں بینیٹ نے اشارہ دیا تھا کہ اسرائیل ایران کے ساتھ کسی نئے بین الاقوامی جوہری معاہدے کا پابند نہیں ہوگا۔ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق اسرائیلی حکومت مذاکرات کو ہمیشہ حقیر سمجھتی ہے کیوں کہ اس کا وجود جنگ، کشیدگی اور دہشت گردی پر قائم ہے اور یہ کہ اسرائیل ویانا مذاکرات کو ”زہرآلود“کرنے کیلئے ایک بار پھر جھوٹ بول رہا ہے۔ اکتوبر میں اسرائیل کے ایک صحرائی ایئربیس پر اسرائیل سمیت سات ممالک کی مشترکہ جنگی مشقیں بھی ہوئیں۔ اسرائیل نے ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کیلئے ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر مختص کیے ہیں اور اس کے سیاسی اور عسکری حکام ایران کے خلاف تقریبا روزانہ تنبیہی پیغام جاری کر رہے ہیں۔ اسرائیل خود جوہری طاقت ہے مگر مشرق وسطی میں کسی اور ملک کی جوہری طاقت کو اپنے وجود کیلئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ اسی خدشے کے تحت اس نے 1981 میں عراق اور2007 میں شام کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے انہیں تباہ کیا تھا۔یہ بات تو واضح ہے کہ اسرائیل امریکی تعاون کے بغیر ایران پر کامیاب فضائی حملے نہیں کر سکتا۔ وہ امریکہ کو تہران سے سختی سے پیش آنے کا کہہ رہا ہے لیکن امریکی صدر جو بائیڈن بوجوہ ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی کے مخالف ہیں اور مشرق وسطی میں کوئی نیا پھڈا کھولنے سے گریزاں ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے آخری دنوں میں مبینہ طور پر ایران کے سویلین جوہری پلانٹس اور دیگر اہداف پر حملہ کرنا چاہتے تھے مگر ان کے مشیروں نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔ امریکہ ایران کے ساتھ 2005 کے پرانے معاہدے کی بحالی چاہتا ہے مگر اسرائیل اس کا مخالف ہے۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مسلسل پروپیگنڈے کی وجہ سے ایک سروے کے مطابق 51 فیصد اسرائیلی ایران کے خلاف کاروائی کے حق میں ہیں۔امکان یہ ہے کہ اگر اسرائیل کو یقین ہوگیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کاروائی کے بعد وہ اکیلا رہے گا نہ اس پر پابندیاں لگیں گی اور نہ ہی ایران اس کے خلاف جوابی کارروائی کرسکے گا تو وہ فورا ًسے پیشر یہ حملہ کرلے گا۔ تاہم ایران کہہ چکا ہے وہ اپنے جوہری تنصیبات پر حملے کا چونکا دینے والا جواب دے گا۔ عراق اور شام کے خلاف سابقہ حملوں کے بعد اسرائیل کو کسی جوابی کاروائی یا پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا تاہم سرائیل جانتا ہے ایرانی جوہری تنصیبات پر عراق اور شام کی طرح حملہ کرنا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ فاصلہ، رسائی اور مضبوط فضائی دفاع کے پیش نظر ایران ایک مشکل ہدف ہے۔ اپنے جوہری تنصیبات کو لاحق خطرات کے پیش نظر ایران اپنی چند تنصیبات زیر زمین لے گیا ہے۔ پھر ایران کی جوہری تنصیبات ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی زمین سے فضا میں مار کرنے والی میزائل نظام 300 کلومیٹر فاصلے تک طیارے کو ٹریک کرنے اور نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یوں اسرائیل کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ واضح رہے جولائی 2020 میں ایک ایرانی یورینیم افزودگی پلانٹ میں سبوتاژ کی ایک کاروائی سے آگ لگی جس کا الزام اسرائیل پر لگایا گیا۔ اپریل میں بھی ایک ایرانی جوہری پلانٹ میں نیا سازو سامان لگایا گیا مگر اسے سخت نقصان پہنچایا گیا اور ایران نے اسرائیل کی 'جوہری دہشتگردی' قرار دیا۔ ایران کہتا آیا ہے اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے۔ اسرائیل کو خدشہ ہے ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے اور وہ چاہے تو ایک ماہ میں ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے افزودہ یورینیم تیار کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی کا بھی کہنا ہے کہ ایران یورینیم افزودہ کرنے کی اپنی صلاحیتیوں میں مسلسل اضافہ کررہا ہے اور اس نے یورینیم کو بیس فیصد افزودہ کردیا ہے۔ واضح رہے جوہری بم بنانے کیلئے یورینیم کو نوے فیصد افزودہ کرنا پڑتا ہے۔ 2015 کے معاہدے کے تحت ایران کو صرف 3.67 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت تھی۔ اس وقت دنیا میں تقریبا 442 جوہری بجلی گھر ہیں جن میں 104 امریکہ میں ہیں۔۔یاد رہے کہ جولائی 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں میں مشترکہ جامع منصوبہ عمل نامی جوہری معاہدہ ہوا جس پر ایران، جرمنی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے دستخط کیے۔ اس کے تحت ایران اپنے بیشتر جوہری پروگرام کو ختم کرنے اور بین الاقوامی معائنے کے لئے اپنی سہولیات کھولنے پر آمادہ ہوا۔ اس کے بدلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایران سے پابندیاں ختم کردیں اور اس کے سو ارب ڈالرز کے منجمد اثاثے بحال کردئیے۔ لیکن 2018 میں امریکہ معاہدے سے دست بردار ہوا تو ایران نے 2019 میں افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو مقررہ حد سے بڑھانا شروع کردیا۔ ایران نے بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اچانک دورے اور معائنے بھی محدود کردیئے۔