پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے تیئس مارچ کو ”مہنگائی مارچ“ کا فیصلہ مبینہ طور ہوتا دکھائی نہیں دیتا جس کی ایک وجہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں اختلاف تو دوسری طرف عوام کی لاتعلقی ہے اور فاصلہ ہے جو بدستور قائم ہے۔ حزب اختلاف کے پاس دوسرا راستہ قانون ساز ایوانوں سے مستعفی ہونے کا ہے جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ استعفوں کا کارڈ استعمال کرنے کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) جو حزب اختلاف کی جماعتوں کی قیادت کر رہی ہے بہت پہلے چاہتی تھی کہ ایوانوں سے استعفیٰ دے کر قبل ازوقت (وسط مدتی) عام انتخابات کی راہ ہموار کی جائے تاہم پیپلزپارٹی اور نواز لیگ دونوں نے اِس مؤقف کو تسلیم نہیں کیا۔ سال دوہزار اٹھارہ کے انتخابی مینڈیٹ کی بنیاد پر تشکیل پانے والی تحریک انصاف اور اِس کے اتحادیوں کی حکومت کی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیاں اور ’نئے پاکستان‘ سمیت بدعنوانی سے پاک معاشرے کی تشکیل جیسے تصورات اور ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچے۔ کڑی شرائط پر بیل آؤٹ پیکج کے لئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنا عوام کے لئے درست فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔ ملک کی معاشی و اقتصادی صورت مجموعی طور پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے لئے حکومت مخالف تحریک کی صف بندی کرنے کے حوالے سے یقینا سازگار ہے جبکہ وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کو محض چند سیٹوں کی عددی اکثریت حاصل ہے چنانچہ نواز لیگ پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) اور بعض قوم پرست جماعتوں نے حکومت کو گرانے کی حکمت ِعملی کے تحت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر گزشتہ برس ستمبر میں ”پی ڈی ایم“ کے نام سے اتحاد قائم کیا تھا جس کے پلیٹ فارم پر ملک بھر میں پبلک جلسوں‘ مظاہروں اور دھرنوں کی شکل میں حکومت مخالف تحریک کا آغاز کیا گیا لیکن حزب اختلاف تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہیں کر سکی۔ حزب اختلاف کے اتحاد سے ایوان کے اندر تبدیلی کی حکمت ِعملی بھی طے ہوئی اور استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کا بھی سوچا جاتا رہا۔ جب سینیٹ کے انتخابات میں پی ڈی ایم کو ایک جنرل نشست پر غیر متوقع کامیابی حاصل ہوئی جس کی بنیاد پر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے بھی پی ڈی ایم کا پلڑا بھاری نظر آنے لگا تو حکومت کے لئے صبح گیا یا شام گیا والی کیفیت بن گئی تاہم خوش گمانیوں کے اسی مرحلہ میں یکایک پی ڈی ایم کے اندر اختلافات پیدا ہوئے اور جوتیوں میں دال بٹتی نظر آئی اور پھر پیپلز پارٹی اور اے این پی نے تلاش کرکے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس طرح پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر حکومت گرانے کیلئے پکائی گئی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی۔ پی ڈی ایم کے تتر بتر ہونے پر حکومت نے تو یقینا سکھ کا سانس لیا جس سے توقع تھی کہ وہ اب عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے کے عملی اور ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔ حزب اختلاف کے دل میں فی الواقع عوام کے لئے درد ہو تو وہ حکومت مخالف تحریک کی ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی کر کے اس تحریک کی کامیابی کی راہ ہموار کر سکتی ہے مگر پی ڈی ایم کے کے حالیہ سربراہی اجلاس میں اختیار کی گئی گومگو والی پالیسی سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں ابھی تک مصلحتوں کا لبادہ نہیں اتار پائیں چنانچہ وہ فوری طور پر کوئی مؤثر حکومت مخالف تحریک شروع کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتیں۔ ’پی ڈی ایم‘ کی جانب سے تیئس مارچ کو اسلام آباد میں مہنگائی مارچ کا اعلان درحقیقت حکومت کے لئے ساڑھے تین ماہ کی مہلت ہے۔ اسی طرح ’پی ڈی ایم‘ کے پلیٹ فارم پر لانگ مارچ‘ دھرنے یا استعفوں کے معاملہ میں بھی گومگو کی کیفیت برقرار رکھی گئی ہے جو حکومت کے محفوظ ہونے اور پانچ سال کی آئینی میعاد پوری کرنے کا ٹھوس عندیہ ہے۔ حزب اختلاف کا دباؤ ہو یا نہ ہو حکومت کو خود ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عام آدمی کے دکھوں کا احساس کرنا چاہئے اور انہیں حقیقی ریلیف دینے کے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے چاہئیں۔ درست ہے کہ حکومت کو فی الوقت حزب اختلاف کی کسی بھی تحریک یا کسی بڑے احتجاج کی خواہش سے کوئی خطرہ نہیں مگر حکمران جماعتوں نے آئندہ عام انتخابات کے لئے عوام کے پاس تو جانا ہے اس وقت عوام ہی حقیقی حزب اختلاف ہیں جنہیں مطمئن کر کے ہی حکومت آئندہ انتخابات میں ان کی ہمدردیاں حاصل کر سکتی ہے۔