علا مہ اقبا ل کے کلا م میں ہر مکتب فکر کو اس کے ذوق کا مواد مل جا تا ہے جس طرح ترقی پسند کلا م اقبال سے حوالے دے دے کر اپنی بات منوا نا چاہتے ہیں اس طرح مخالفین کو بھی کلا م اقبال سے ان کے مطلب کا مواد ہاتھ آجا تا ہے جمہوریت پسند بھی کلا م اقبال کا سہا را لیتے ہیں اور مخالفت کرنے والے بھی کلا م اقبال سے استفادہ کر تے ہیں پا کستان کی مو جو دہ سیا سی صورت حال پر علا مہ اقبال نے کم و بیش 90سال پہلے جو تبصرہ کیا وہ آج کا تجزیہ نگا ر بھی نہیں کر سکتا اور خو بی یہ ہے کہ صرف دو مصرعوں میں معا نی کا سمندر نظر آتا ہے علا مہ اقبال نے کہا تھا۔
پرانی سیا ست گری خوار ہے
2021ء میں پا کستان کے عوام و خواص جلسوں، جلو سوں، ریلیوں اور ہنگا موں سے اکتا ہٹ کا شکار ہو چکے ہیں اس اکتا ہٹ اور بیزا ری کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاعر مشرق کا شعر ہمارے زمانے کیلئے ہے اور کلا سیکی ادب پارہ ایسا ہی ہو تا ہے علا مہ اقبا ل نے قدیم باد شا ہوں کی تاریخ کا گہرا مطا لعہ کیا تھا اقبال کا تصور تاریخ ڈاکٹر راشد حمید کی تحقیق کا مو ضوع رہا ہے اور اس مو ضوع پر ان کی کتا ب حوالے کی کتاب بن چکی ہے۔کچھ باد شاہوں کے دربار مخصوص اطوار واداب کیلئے شہرت رکھتا تھے۔دربار میں حا ضری دینے والوں میں سے جو درباری باد شاہ کی زیا دہ تعریف کرتا اس کو بڑا عہدہ ملتا تھا اور بڑے عہدے کے لا لچ میں چا لاک درباری باد شاہ کوعقل کل ثا بت کرنے پر زور خطا بت صرف کرتے تھے بادشاہ کو دن رات یہ باور کرایا جا تا تھا کہ اس دنیا میں آپ جیسی شخصیت کوئی نہیں تما م خو بیاں آپ کی ذات میں ہیں۔کچھ شاہی درباروں کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ دربار یوں کا ایک اہم کا م تاج و تخت کے دعویداروں کا قلع قمع کرنا تھا، درباری باد شاہ کے کان بھر نے کیلئے تاج و تخت کے دعویداروں کے خلاف قصے کہا نیاں تراش کر لا تے تھے بعض دعویدار وں کو عمر بھر کیلئے زندان میں ڈالتے تھے بعض کو جلا وطن کر تے تھے اور بعض کو قتل کر وادیتے تھے تا کہ باد شا ہ سلا مت کے تاج و تخت پر کوئی دعویٰ داری نہ کر سکے یہ پرا نی سیا ست گری تھی۔ باد شاہ ہوں کے درباروں میں یہی سیا ست چلتی تھی علا مہ اقبال نے اس طرز سیا ست کو ”خوار“۔ موجودہ دور کو جمہوری دور کہا جا تا ہے شا ید ہو گا، امریکہ، بر طا نیہ، فرانس، جر منی وغیرہ میں جمہوری دور ہو گا تیسری دنیا کے مما لک میں حقیقی جمہوری دور ہم نے بہت کم دیکھا ہے بلکہ جمہوریت کے لباس میں بھی شخصی حکومتیں دیکھی ہیں۔ اوراس کی وجہ شاید یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات اور جمہوریت کا عنصر کم پایا جاتا ہے اور چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر سیاسی جماعتوں میں مخوص لوگوں کو چیلنج کرنے کی روایت ہی نہیں اور ایک طرح سے نامزدگیو ں کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔جن سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر کمزور ہے تو وہاں پر سیا سی جما عت کا سر براہ ایک طرح باد شاہ ہو تا ہے وہ اپنا دربار لگاتا ہے۔ ہر جما عت کا لیڈر تاج و تخت کے دعویداروں پر نظر رکھتا ہے اور درباری اس غم میں غلطاں ہو تے ہیں کہ لیڈر کے بد خوا ہوں اور دشمنوں سے کب اور کہاں دو دو ہاتھ کریں یہاں بھی باد شاہ کے دربار کی طرح ملک اور قوم کا درد کم ہی ہو تا ہے اس لئے عوام اور خواص بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں گویا ”پرانی سیاست گری خوار ہے“اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاست یکسر خوار ہوئی ہے بلکہ اس کو اگر ایک واضح نصب العین کے ساتھ کیا جائے تو یہ ملک و قوم کی خدمت اور بھلائی کا بہترین ذریعہ ہے، تاہم اس وقت جو نقشہ سامنے ہے اس کودیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ہماری دنیائے سیاست میں ایسے لوگ انگلیوں پرگنے جا سکتے ہیں۔