روس اور یوکرین کی درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے اور یوکرین کو خدشہ ہے روس کسی بھی وقت اس کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق بھی روس جنوری میں ایک کثیر محاذی حملے کی تیاری کر رہا ہے جس میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ فوجی شامل ہوں گے۔تاہم روس نے حملے بارے قیاس آرائیوں کو کم ظرفی اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے وہ کسی بھی ملک کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہے مگر اسے اپنی سرزمین پر فوج تعینات کرنے کا حق حاصل ہے۔واضح رہے یوکرین کی افواج 2014 سے اس کے مشرقی یوکرین میں روسی حمایت یافتہ افواج سے لڑ رہی ہیں۔ اس لڑائی میں اب تک 14,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر جو بائیڈن نے پچھلے ہفتے اپنے ویڈیو مذاکرات میں دیگر امور کے علاوہ اس کشیدگی پر بات چیت کی مگر اس کے بعد بھی روس کی طرف سے حوصلہ افزا اشارے دیکھنے میں نہیں آئے اور یوکرین کے سرحد پر روسی فوج کی غیر معمولی تعداد، نوعیت اور تیاری کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے یوکرین پر روسی حملے کا خطرہ جوں کا توں ہے۔یوکرین نے سہ فریقی رابطہ گروپ، جس میں روس، یوکرین اور یورپ کی تنظیم برائے سلامتی و تعاون شامل ہیں، کو ایک بیان میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ روس نے قیدیوں کے تبادلے، ایک چوکی کو دوبارہ کھولنے اور مشترکہ مواصلاتی مرکز، جو مشرقی یوکرین میں یوکرین اور روس نواز باغیوں کے مابین جنگ بندی پر عمل درآمد کی نگرانی کرتی ہے، میں فرانس اور جرمنی کو بھی شامل کرنے سمیت اس کی کئی تجاویز کو مسترد کر دیا ہے۔ روس کے مطابق یوکرین کی تجاویز "بالکل مضحکہ خیز ہیں اور ایسی صورتحال میں یوکرین کے علیحدگی پسند حکام اور تنظیم برائے سلامتی و تعاون نے بات چیت جاری رکھنا ناممکن سمجھا۔ ہم اس فیصلے کو سمجھ سکتے ہیں۔"روس اور یوکرین ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی کے الزامات ایسے وقت میں لگارہے ہیں جب مشرقی یوکرین میں ایک نئی جنگ بندی پر رضامندی کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور روس کے تقریباً نوے ہزار فوجیں یوکرین کے آس پاس موجود ہیں جن کی اکثریت کریمیا میں ہے جسے 2014 میں روس نے یوکرین سے چھینا تھا اور مزید روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیرِ کنٹرول علاقے دونباس میں ہیں۔یوکرین کے مطابق ٹینکوں، توپخانے اور سنائپرز سمیت بھاری ہتھیاروں کی کمک باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں پہنچائی جا رہی ہے۔یوکرین کا مسئلہ روس اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات میں بحران کا بنیادی عامل ہے۔ مغربی ممالک روس پر یوکرین میں مداخلت، علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے اور اس کی سرحد پر افواج جمع کرکے اس پر عنقریب حملہ آور ہونے کا الزام لگارہے ہیں۔روس یوکرین اور امریکہ پر عدم استحکام پیدا کرنے والے رویے کا الزام لگاتا ہے اور کہا ہے کہ اسے اپنے تحفظ کے لیے ضمانتیں درکار ہیں۔روس کو ان غیر مصدقہ اطلاعات بارے بھی تشویش ہے کہ یوکرین نیٹو میں شامل ہونے جارہا ہے۔ اس نے یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے کو خطرے کی لکیر قرار دیا ہے اور کہا ہے مغربی ممالک اسے عبور کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اسے خدشہ ہے اس کے بعد وہاں نیٹو کے فوجی دستے، اڈے اور ہتھیار آجائیں گے جنہیں روس اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ وہ اس کی ضمانت بھی چاہتا ہے کہ جو علاقے روس نواز علیحدگی پسندوں نے روس کے تعاون سے 2014 میں قبضہ کیے تھے یوکرین ان پر قبضہ نہیں کرے گا۔برطانیہ کے شہر لیورپول میں دنیا کے ساتھ بڑے ممالک کی تنظیم جی سیون، جن میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا، اٹلی، جاپان شامل ہیں، کے وزرائے خارجہ آج اکٹھے ہورہے ہیں اور برطانیہ کی وزیر خارجہ لزٹرس کے بقول جی سیون ممالک، کو روس کے خطرے کے سلسلے میں یوکرین کا واضح ساتھ دینا ہوگا اور روس کو اس اقدام سے روکنا ہوگا۔ ٹرس نے جی سیون ممالک کو یاد دلایا کہ آزاد دنیا کو حریف نظریات کے خطرات بارے چوکس رہنا ہوگا۔ اس سلسلے میں اس نے روسی گیس پر یورپ کے انحصار کے معاشی خطرات اور چینی ٹیکنالوجی سے لاحق وسیع تر سلامتی کے خطرے کی نشان دہی کی۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر جو بائیڈن نے پچھلے ہفتے اپنے ویڈیو مذاکرات میں اس کشیدگی پر بات چیت کی مگر اس کے بعد بھی روس کی طرف سے حوصلہ افزا اشارے دیکھنے میں نہیں آئے اور یوکرین کے سرحد پر جمع روسی فوج کی غیر معمولی تعداد، اسلحہ اور تیاری کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے یوکرین پر روسی حملے کا خطرہ جوں کا توں ہے۔اگرچہ امریکہ نے کہا ہے وہ یوکرین میں اپنی افواج نہیں رکھے گا مگر اپنی آن لائن بات چیت میں بائیڈن نے پیوٹن کو خبردار کیا کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرے گا تو وہ پابندیوں کیلئے تیار رہے جب کہ پیوٹن نے اس بات کی ضمانت کا مطالبہ کیا کہ نیٹو مشرقی سمت پھیلنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ صدر بائیڈن نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماں کے ساتھ یوکرین کو بچانے کیلئے پابندیوں سمیت تمام وسائل بروئے کار لانے پر اتفاق کیا۔ ممکنہ اقدامات میں روسی بینکوں پر کرنسی کو زرِ مبادلہ میں تبدیل کرنے پر پابندیاں اور مالی ادائیگیوں کے عالمی نظام سوئفٹ سے روس کو نکالنا شامل ہے۔چین نے روس روس اور یوکرین کے تنازعے سے دور رہنے کا اعلان کیا ہے لیکن اگر جی سیون ممالک روس کے خلاف مشترکہ محاذ قائم کرلیتے ہیں تو سوال یہ ہے کیا جی سیون میں شامل یورپی ممالک، جن کی معیشتیں روس سے درآمد شدہ گیس کی محتاج ہیں، روس کی اس توانائی ہتھیار کا مقابلہ کرسکیں گی۔ ویسے روس اس سے پہلے بھی مغربی پابندیوں کا مقابلہ کر چکا ہے۔ ممکنہ طور پر یوکرین کی خودمختاری کے تحفظ کیلئے نیٹو یوکرین کی مدد کو نہیں آئے گا۔