کسی کے ماتھے پر تو نہیں لکھا ہوتا۔ جو سامنے والے کو نظر آ جائے۔ پھر ماتھے کی تحریر بندہ خود کہاں پڑھ سکتا ہے۔مگر کلاس میں سٹوڈنٹس کے ماتھے پر ضرور لکھا ہوتا ہے۔جو خودانھیں تو نظر نہیں آتا۔ مگر استاد کو یہ لکھائی صاف نظر آتی ہے۔ٹیچر جانتا ہے کہ کون میری باتوں میں دلچسپی لے رہا ہے کون نہیں لے رہا۔پھر آمنے سامنے کی گفتگو سے بھی راز کھلتے ہیں۔ سٹوڈنٹ سمجھتا ہے کہ استاد کو کلاس کے اندر میرے ذہن کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ہیں۔کبھی وہ اپنے آپ کو اپنی خاموشی اور کھوئے کھوئے اندازکے پردے کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔مگر اس کی اس کوشش کو کسی ٹہنی کی طرح اوپر اٹھتے ہوئے کسی استاد کی نظروں سے دیکھا جاسکتا ہے۔پھر کلاس کے باہر بھی برآمدوں میں ملتے جلتے ہیں۔وہاں بھی طالب علم کی جسمانی حرکات و سکنات اور ٹیچر سے میل جول کا انداز بہت سی چغلیاں کھانے لگتا ہے۔طلباء کے ٹیلنٹ اور ان کی محنت کو ناپنے کے اور طریقے بھی ہیں جو دورانِ لیکچررواں دواں رہتے ہیں۔ عام طور سے استاد کو کبھی کبھار کلاس والوں سے اچانک ایک ہی پیریڈ کاتحریری امتحان لینا ہوتا ہے۔مقصد طلباء کی اپروچ کو جانچنا پرکھنا ہے۔ہاں کمرہ ئ جماعت میں سٹوڈنٹس کی تعداد اگر عالمی معیار کے مطابق چالیس ہو۔یوں استاد طالب علموں پر بھرپور توجہ دے سکتاہے۔اس محدود تعداد کی وجہ سے ٹیچر کوکلاس میں طلباء کے نام تک یاد ہو جاتے ہیں۔مگر یہی تعداد بڑھ کر ایک سو بیس ہوجائے تو پھر ایسے میں الٹاٹیچر کو اپنے اوپر توجہ دینا ہوتی ہے۔ اس کیفیت میں اس کو اپنی دوائیوں کا انتظام برابر رکھناہوتا ہے۔کیونکہ اس نے اپنی آواز کلاس روم کی کھڑکیوں کے باہر کھڑے طلباء تک پہنچانا ہوتی ہے۔جو کمرے میں جگہ نہ پا کر باہر کھڑکی کے پاس کان لگائے لیکچر سن رہے ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں کا نظامِ تعلیم بہت سی اصلاح کا تقاضا کرتا ہے۔ہم میں بہت خامیا ں ہیں جن کودرست کرنا ہے۔ داخلے اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ کلاس کے کمرے میں بچوں بچیوں کو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ایسے میں انھیں باہر کھڑے ہوکر لیکچر کی آواز سن کر اطمینان حاصل کرنا ہے۔تعداد زیادہ ہو تو ایک ہی کلاس کو دو حصوں یا تین پورشن میں تقسیم کرکے الگ الگ سیکشن ترتیب دینا ہوتے ہیں۔مگر اس میں ایک اور مسئلہ پیدا ہو جاتاہے۔وہ یہ کہ ایک ہی استاد ان دوسیکشنوں کو مختلف اوقات میں نہیں پڑھا سکتا۔کیونکہ اس کے پاس دوسر ی کلاسیں بھی ہوتی ہیں۔لیکن اگر چارہ نہ ہو تو کیا یہ علاج بہتر نہیں کہ اوپر تلے کے تین سیکشنوں کو ایک ہی ڈبے میں سمو کر ان کو تعلیم دی جائے۔یہ سب کچھ ہمارے نظام کی بے ترتیبی سے ترتیب پاتا ہے۔ابھی تو ہم چاند پر گئے ہیں اور ایک ہی بار گئے۔ وہ بھی ہم انسانوں میں سے گئے۔ ہمارے ہم وطنوں میں سے توکوئی نہیں جا سکا۔ ابھی چاند سے آگے سیارے اورستارے بھی ہیں۔ابھی ہم نے ستاروں کو راستے کی دھول بنا کر پیچھے چھوڑ کر ترقی کے سفر پر آگے بڑھنا ہے۔یہ ترقی ہوگی تو ضرورمگر کب ہوگی ا س کے بارے میں کسی کو جانکاری نہیں۔کیونکہ ہمارا قریب ترین سیارہ مریخ بھی تاحال ہماری آمد کامنتظر ہے۔یہ سرخ سیارہ درجہ حرارت میں زمین سے بہت بڑھ کر ہے۔اسی لئے ہم اسے اپنی جگہ کھڑے رہ کر دیکھیں تو سرخ انگارہ سا نظر آتا ہے۔اس پر انسانوں کے بنائے نو مین روبوٹ جہاز ہی ابھی تک پہنچ سکے ہیں۔ اقبال کا شعرکیا خوب عکاسی کرتا ہے۔مگراب کی تو نہیں۔اقبال کو انتقال کئے آج 83سال ہو چکے ہیں۔اگر ان کی جوانی کے دور کو ذہن میں لائیں تو یہ مدت ایک سو سال بنتی ہے۔جب انھوں نے یہ شعر کہا ہوگا ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اوربھی ہیں“۔ابھی تو انسان کا دماغ ایک فی صد بھی استعمال نہیں ہوا۔جانے اور کون کون سی دنیائیں ہیں جہاں تک پہنچنے کی کوشش ہے۔مگر ہمارے موجودہ تعلیم کے نظام کے ہوتے ہوئے اتنا توکہا جا سکتا ہے کہ چاند پر قدم رکھنے والے شاید ہم نہ ہوں۔ یہ ابھی کی بات ہے۔سات سال ہی تو ہوئے ہیں۔ مگر اقبال نے بہ اندازہ ایک سو سات پہلے یہی پیش گوئی اس شعر میں کی ہے۔ہمارے ہاں کلاس روم سے نکل کر عملی دنیا میں قدم رکھنے والے طالب علم روٹی پانی کی تلاش میں سرگرداں ہونے لگے ہیں۔ نوکریوں کی دُھن میں یہاں وہاں درخواستیں دیتے ہیں۔نوکری لگ گئی تو ٹھیک وگرنہ کاروبار کرنا تو کہیں گیا نہیں۔والد کے کام کاج کو سنبھال لیں گے۔جو ڈگری انھوں نے حاصل کی وہ شیشہ میکرسے فریم کرواکے گھرکے ڈرائنگ روم میں دیوار پر تھوپ دیں گے۔جو مہمان آئے ایک بار یا بارہا بس اس سند کودیکھے گا۔