نئی سیاسی صف بندیاں 

8دسمبر کو صدر بائڈن اور صدر پیوٹن کے درمیان جو وڈیو کانفرنس ہوئی اس پر ایک دنیا کی نظر تھی پر کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کے مصداق اس سے نہ کچھ حاصل ہوا نہ کچھ وصول۔مغربی میڈیا کے مطابق امریکی صدر نے روسی صدر کو وارننگ دی کہ اگر روس نے یوکرائن سے چھیڑ چھاڑ کی تو امریکہ خاموش تماشائی بن کے نہیں بیٹھے گا امریکہ کی یہ دھمکی اس لئے بے معنی لگتی ہے کہ یوکرائن میں جو کچھ بھی ہوگا وہ اس کے اندر سے ہی ہوگا موجودہ حکومت سے چھٹکارا پانے کیلئے باغیوں کو کسی بیرونی جار حیت کا سہارا لینا نہیں پڑے گا کیونکہ یوکرائن کے اندر ایک اچھی خاصی اکثریت ہے جو روس نواز ہے یا روسیوں پر مشتمل ہے۔ خدا لگتی یہ ہے کہ امریکہ جو کہ ایک عرصہ دراز تک سپر پاور تھا آج اس حقیقت کو ہضم نہیں کر پا رہا کہ دو کیمونسٹ ملک یعنی روس اور چین دنیا پر چھا رہے ہیں اور انہوں نے کافی حد تک دنیا میں امریکہ کی چودھراہٹ پر کاری ضرب لگائی ہے۔ روس میں قوم پرستوں کا وہ طبقہ جو سویت یونین کے ٹوٹنے پر سخت آ زردہ تھا اور جو امریکہ کی سازشوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتاہے صدر پیوٹن کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ جو وہ وسطی ایشیا کے ممالک کو ایک مرتبہ پھر ماسکو کے سا تھ ملانے کیلئے کررہے ہیں۔ سائنس کی ترقی سے دنیا کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے آ نے سے ابلاغ عامہ کی دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا ہو چکا ہے اس لئے اب دنیا میں میں سچ اور دروغ کو زیادہ عرصے تک نہیں چھپایا جا سکتا izvestia  ازوستیا ماسکو سے نکلنے والے ایک اخبار کا نام ہے ازویستیا روسی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب ہے خبر۔ اسی طرح ماسکو سے ہی شائع ہونے والے ایک دوسرے اخبار کا نام ہے پراودا Pravda جس کا روسی زبان میں معنی ہے سچ۔ یہ دونوں روسی کمیونسٹ پارٹی کے اہم اخبارات ہیں آج سے چند برس قبل تک جب کہ سوویت یونین ابھی ٹوٹا نہ تھا اور وسطی ایشیا کے ممالک اس سے جدا نہ ہوئے تھے اور وہاں پر اخبارات پر سخت ریاستی کنٹرول تھا کہ جیسے کمیونسٹ ممالک میں ہوا کرتا ہے تو امریکہ کے صحافی طنزیہ طور پر کہا کرتے کہ ازویستیا میں کوئی پراودا نہیں ہوتا اور پراودا میں کوئی ازویستیا نہیں ہوتی۔ بالفاظ دیگر ازویستیا میں کوئی سچ نہیں ہوتا اور پراودا میں کوئی خبر نہیں ہوتی۔ جب سوویت یونین کا 1990 کی دہاہی میں شیرازہ بکھرا تھا تو کئی سالوں تک ماسکو کا عالمی امور میں وہ کلیدی رول ختم ہو گیا تھا جو 1940 سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک اس نے ادا کیا تھا پر جب سے پیوٹن کے ہاتھوں میں روس کی قیادت آ ئی ہے اس دن سے ماسکو بین الاقوامی امور میں ایک مرتبہ پھر زیادہ دلچسپی لینے لگا ہے موجودہ روسی قیادت نے اس بات کو کو ذہنی اور دلی طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ چین کے ساتھ ساتھ قدم ملا کر کر چلنے سے وہ بین الاقوامی امور میں اپنی ساکھ بڑھا سکتی ہے چناچہ اس نے اپنا وزن چین کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور ان دو عظیم قوتوں کی آ پس میں قربت نے عالمی سیاست کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ بھارت میں ناگالینڈ کے حالات دن بدن اچھے ہونے کے بجائے خراب ہوتے جا رہے ہیں اگلے روز بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تیرہ افراد کی ہلاکتوں نے ناگا لینڈ کے باسیوں کے دلوں میں مودی سرکار کے خلاف نفرت میں شدید اضافہ کر دیا ہے۔ ہندوستانی فوج بھی اب سیکولر نہیں رہی اور وہ نسل پرستی کا شکار ہو رہی ہے اور اس کی تمام تر ذمہ واری ار ایس ایس پر ہے جس کے جراثیم قصدا ًبھارتی فوج میں پھیلائے گئے ہیں۔ کسی بھی ملک کی افواج میں اگر ایک مرتبہ وطنیت کا جزبہ عنقا ہو جائے اور اس کی جگہ نسل پرستی اور فرقہ پرستی کے جراثیم پھیل جائیں تو وہ اس کی تباہی کی نشانی ہوتی ہے۔ یہ بات صرف بھار تی فوج تک محدود رنہیں رہی بلکہ زندگی کے ہرشعبے کو اس نے متاثر کیا ہے۔اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ہر شعبے میں سرائیت ہو چکی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب بھارت کے شکست ر ویخت کا عمل تیز ہوگا اور اس کا باعث ہندو انتہا پسند اور آر ایس ایس ایجنڈا ہوگاجس کی تکمیل میں اس وقت مودی حکومت دن رات مصروف ہے۔