جتنے منہ اتنی باتیں 

جنرل بپن راوت کی ہلاکت کے بعد دنیا کے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں طرح طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کیا ان کا ذہنی جھکاؤ آر ایس ایس کی طرف تھا۔انہوں نے اس بھارتی فوجی افسر کی حمایت کیوں کی تھی جس نے مقبوضہ کشمیر میں ایک حریت پسند کشمیری نوجوان کو فوجی جیپ کے آ گے باندھ کر سڑک پر گھسیٹا تھا اور جس کی ویڈیو سوشل میڈیا ہر وائرل ہوئی تھی۔ جنرل بپن راوت نے clash of civilization تہذیبوں کے ٹکراؤ پر ایک متنازعہ تقریر کیوں کی تھی جس پر کئی ممالک میں ایک کھلبلی مچی تھی اور جس پر بعد میں بھارت کے وزیر خارجہ کو یہ وضاحت کرنا پڑی تھی کہ ان کا وہ بیان حکومت کا نقطہ نظر نہیں بلکہ ان کی ذاتی رائے ہے ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان کے واسطے چیف ڈیفنس سٹاف کی اسامی خصوصی طور پر منظور کی گئی کہ وہ نہ صرف یہ کہ مودی کے منظور نظر تھے بلکہ ان کے سیاسی نظریات پر بھی یقین رکھتے تھے اور ان ہی کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے بعض پرانے سینئر فوجی افسروں کا بھی ان کی بطور چیف ڈیفنس سٹاف تعیناتی کے پیچھے ہاتھ تھا۔ اس ا سامی پر ان کی تعیناتی بھارتی فوج کے کئی سینئر ترین جرنیلوں کو پسند نہ تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کے پس منظر میں سیاست کا ہاتھ ہے۔ وہ جس ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے۔ وہ روسی ساخت کا محفوظ ترین ہیلی کاپٹر تھا جو دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی وی وی آئی پیز استعمال کر رہے ہیں۔ جب وہ حادثے کا شکار ہوا تو موسم بھی زیادہ خراب نہ تھا اور معمولی خراب موسم اس پر اثر انداز بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ جس روسی کمپنی نے یہ ہیلی کاپٹر بنایا تھا اس کی ٹیم اس حادثے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ جس کے بعد ہی صحیح پتہ چلے گا کہ کیا یہ حادثہ کسی فنی خرابی کی وجہ سے ہوا یا پائلٹوں کی غلطی اس حادثے کا باعث بنی اور کیا اس حادثے کے پیچھے کوئی سازش تو کار فرما نہ تھی۔اب ذرا وطن عزیز کی سیاست کا بھی کچھ تذکرہ ہو جائے تو بے جا نہ ہوگالاہور کے حالیہ ضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس کی وجہ سے پارٹی کے قائدین کے حوصلے ذرا بلند ہوئے ہیں اور ایک نئی حکمت عملی کے تحت انہوں نے آئندہ ایک آدھ سال کے دوران پنجاب کو اپنی توجہ کا زیادہ سے زیادہ مرکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ روز اول سے ہی پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سیاسی طور پر ایک دوسرے کے بیری رہے ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ ماضی میں کبھی کبھار سیاسی مصلحتوں نے ان دو سیاسی پارٹیوں کو آ پس میں بعض امور پر گلے ملانے پر بھی مجبور کیا ہے۔ تازہ ترین پوزیشن یہ ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں شروع کر دی ہیں پی ڈی ایم میں تفریق پر مولانا فضل الرحمن صاحب کافی پریشانی کا شکار ہیں۔ جو کام حکومت کو مرکزی سطح اور صوبائی حکومتوں کو صوبوں کی سطح پر کرنا چاہئے وہ سوات کی ضلعی انتظامیہ نے ضلعی سطح پر کر ڈالا ہے جو قابل ستائش ہے۔ اس کے ایک فیصلے کے مطابق کم جنوری2022سے پرانی بیڈ فورڈ بسیں چلانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سکول کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کیلئے 2000 ماڈل سے نیچے کی گاڑیاں بھی استعمال نہیں کی جا سکیں گی اسی طرح ڈرائیور کیلئے 25 سے 60  سال تک کی عمر مقرر کر دی گئی ہے۔ہم کئی مرتبہ اس کالم کے توسط سے اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ اس ملک میں ہر سال اتنے لوگ ہارٹ اٹیک یا کینسر سے نہیں مرتے کہ جتنا ٹریفک کے حادثات سے سڑکوں پر ہلاک ہوتے ہیں نہ اس ملک میں کوئی ایسا موثر نظام ابھی تک لاگو کیا گیا ہے کہ جس کے تحت ان گاڑیوں کو سڑک پر چلنے نہ دیا جائے کہ جو ٹیکنیکلی سڑک پر چلانے کیلئے ان فٹ ہوں کیونکہ اکثر حادثات گاڑیوں کے ٹائر پھٹنے اور ٹائی راڈ ٹوٹنے سے بھی ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جن کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا جاتا ہے انہیں ٹریفک کے بنیادی اصولوں سے روشناس نہیں کرایا جا رہا۔اکثر ڈرائیوروں کو جو سڑک پر گاڑیاں چلاتے ہیں ٹریفک رولز اور قواعد کا کوئی پتہ نہیں ہوتا اور وہ سڑک پر اپنی مرضی کے ہی تابع ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر جان لیوا حادثات میں آئے روز قیمتی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ جاری ہے بلکہ ماضی کے مقابلے میں یہ تیز نظر آرہا ہے۔ کیونکہ جو لوگ گاڑیاں چلا رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر ٹریفک رولز کی ابجد سے ہی واقف نہیں نیز اوور سپیڈنگ میں ملوث ڈرائیوروں کو پکڑ کر اگر سخت سزا نہیں دی جائے گی تو ٹریفک کے حادثات میں لوگ مرتے رہیں گے۔اس سلسلے میں اب لازمی طور پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔یہاں پر دو مرحلے ہیں ایک موثر قانون سازی اور دوسرا مرحلہ قانون پر عمل درآمد۔ اور دیکھا جائے تو دونوں شعبوں میں کمی نظر آرہی ہے نہ تو ٹریفک کے حوالے سے موثر قانون سازی پر توجہ دی گئی ہے اور جو قوانین و قواعد و ضوابط موجود ہیں ان پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی کمزوری کا مظاہرہ کیا جارہے۔