ان دنوں ہمارا بڑا نام ہے۔پھر وہ نام بدنام ہے۔ ہمارے شہروں کی فضائی آلودگی کے چرچے دنیا بھر میں ہیں۔اپنے گریبان کا دیکھا کس کو نظر آتا ہے۔مدت ہوئی ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنا چھوڑ دیا ہے۔ماتھے پہ لگا کلنک کا ٹیکا ہمیں کیو ں نظر آئے۔مگر ہم آئینے کے سامنے تو جائیں تو سہی۔ ہم آئینہ دیکھنے کے شوقین تو ہیں۔مگر اپنے چہرے کے داغ جو شیشے میں نظر آتے ہیں۔ان کے بارے میں ہماری ریسرچ یہ ہے کہ یہ داغ آئینے پر ہیں۔اس لئے ہم آئینہ صاف کر تے رہتے ہیں۔ہم نے خوبصورتی کے معیارات اپنے پاس سے گھڑ لئے ہیں۔ہم جو دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں آئینے میں وہی نظر آتا ہے۔خواہ حجام کی دکان ہو یا سنگھار میز ہو۔ ہمیں وہی نظر آتا ہے جو ہماری مرضی میں داخل ہوتا ہے۔میں اپنے قلم کے گھوڑے کو اپنے مدعا کے بیان کی جانب موڑنا چاہتا ہوں۔ مگر اس منہ زور کا اتنازور ہے کہ وہ مڑ مڑ کر اسی ابتدائیے کی چراہ گاہ کے سبزہ زار میں دوڑنا چاہتا ہے۔آلودگی ہواوروہ بھی فضائی آلودگی ہو۔اگر ہمیں عام حالات میں آئینے میں اپنے چہرے کے کیل مہاسے اور چھائیاں نظر نہ آئیں۔پھر ایسے میں ناسمجھی کی دھند ہو تو ہم آئینے میں کیسے اپنے آپ کو سنواریں گے۔ پھر ان دنوں سموگ کا نظارہ ہو تو آئینہ کو ایک طرف کرنا پڑتا ہے۔یہاں تو دھند کی وجہ سے جو آئینے میں نظر آتا تھا وہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔اپنی کارستانیاں ہمارا منہ چڑاتی ہیں۔سکولیں بھی بند ہوگئیں اور استادوں کی حاضری بھی آدھی کر دی گئی۔پھر جہاں سکو ل اب تلک کھلے ہیں وہ بھی قریب بند ہو جائیں گے۔مدرسوں کے دروازو ں پر موٹے موٹے تالے لگ جائیں گے۔ جب تلک کہ سردی کہ شدت موجودہے سکول نہیں کھلنے والے۔گذشتہ سے پیوستہ روز موسم میں خنکی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔پشاور کا پارہ ایک پر آکر رکا ہوا ہے۔مگر امید ہے کہ اوپر کے علاقوں کی طرح نیچے نہیں جائے گا۔مگر منفی دو تک جا سکتا ہے۔ کیونکہ پشاور میں دو سال پہلے منفی دو بھی ریکارڈ ہوا ہے۔اس کڑاکے کی سردی کہ لگتا اب برف گرے اوراب گرے۔مگر موسمیاتی تبدیلیوں اور کرہ ارض کے درجہ حرارت کے پوری دنیا میں زیادہ ہونے سے کبھی اچانک سردی او رکبھی اچانک گرمی ہونے لگتی ہے۔یہ سب آلودگی ہی کے سبب تو ہے۔مگر کمال یہ ہے کہ فضائی آلودگی کے نام سے جو شہر اس وقت دنیا میں جہاں بھر کی نظر میں ہیں وہ زیادہ اسی خطے کے شہر ہیں جہاں ہمارا وطن آباد ہے۔پھر بارشوں کا دور دور تک کوئی پتا نہیں چند روز پہلے بادل آیا تھا مگر اس کو ہوا اڑا کر کسی دوسرے شہر لے گئی۔پھر سے دھوپ کی شعاعوں نے ہمیں بیماریو ں میں گرفتار کر لیا۔نزلہ کھانسی زکام گلے کی خراش وغیرہ اسی بارش کے نہ ہونے سے ہیں۔اگر بارش ہو تو ان عام سی بیماریوں میں وقفہ آئے۔سردی کا وہ جوبن نہیں جو ہوا کرتا ہے۔ سردیوں کا اپناالگ مزا ہے اور گرمیو ں کا اپنا سا لطف ہے۔ مگر ان ارضیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ دونوں مزے غارت ہو چکے ہیں۔کسی کو سردی تو کسی کو گرمی کا موسم پسند ہے۔مگر اب پسند نا پسند کے معیار بھی بدلتے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں۔ایک طرف روٹی پانی کامسئلہ اور ایک طرف ماحول کے غیر صحت مند ہونے کا رونا دوسری طرف سردی گرمی کے مقررہ اوقات کی بربادی کا طوفان۔طوفان پہ ایک نیا طوفان اورپھرطوفان تھم جائے تو ایک اور طوفان ہماری سرزمین کی طرف بڑھتا ہے۔موسموں کے تیور بدل گئے ہیں اور کی حوالوں سے یہ ناقابل بھروسہ ہوگئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ موسموں میں شدت بھی آنے لگی ہے گرمی ہے تو سخت ترین گرمی اور اگر سردی ہے تو وہ بھی انتہا پر۔ایک ار مسئلہ اب سموگ کا ہے۔جس سے تازہ تازہ پالا پڑا ہے۔صبح سویرے کی دھند کو ہم بہت اچھا کہتے ہیں مگر یہ تو دھوئیں کے بادل ہیں۔جن میں بچوں کو سکول لے کر جانایا وہ ازخود سکول جائیں تو ان کا بیمار ہوجانا کہیں گیا نہیں۔طرح طرح کی بیماریوں نے بچوں اور بڑوں کا آگھیرا ہے۔پھر اگر عالمی سطح پر ہمیں سموگ کے حوالے سے نشانہ نہ بنایا جائے تو ہمیں ہوش کہاں آتا ہے۔یہ سموگ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہونا چاہئے۔ نیو میکسیکو میں تو لوگوں نے سردی زیادہ ہوجانے کے سبب اپنے گھوڑوں کو موٹے کپڑوں سے ڈھانپ دیا ہے۔وہاں آلودگی کیوں ہو۔۔اس چھاؤں میں خود درختوں کی خوراک جب یہی سموگ ہو تو وہا ں فضائی آلودگی کیوں ہو۔ہم تو خاشاک کیلئے درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر ان ہرے بھرے اشجار کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔پھر ہمارے ہاں گیس کہا ں ہے جو ہم ہیٹر تو نہیں چولھا ہی جلا کر اس پر ہاتھ تاپیں۔بجلی بھی تو نہیں ہوتی۔ پھر اگر ہو تو ہر تیسرے دن کے بعد پانچ روپے فی یونٹ مہنگی ہو جاتی ہے۔ایسے میں سردی سے بچنے کیلئے ہم بجلی کا ہیٹر کہاں جلائیں گے۔پہلے لوگ تو بجلی کے چولھے پر کھانا پکاتے تھے۔مگر اب تو ان کو لگ پتا گیا ہے۔ہم فضائی آلودگی کا خود کارن ہیں۔ جو کیا دھرا ہے ہمارا خود کاہے۔کیونکہ یہاں تعلیم عام نہیں ہے۔کسی پتا نہیں کہ سموک کیا ہے پھر اس کو ا س بات کی جانکاری کہاں کہ یہ سموگ کیا بلاہوتاہے۔ پھر اس کو یہ کہاں او رکیوں معلوم ہو کہ آلودگی کس چڑیا کانام ہے اور پھر فضائی آلودگی کیا ہے۔ دیکھا جائے تو کسی بھی ماحول کی صفائی اور آلودگی وہاں کے رہنے والوں کی مرہون منت ہے۔اگر ہر فرد اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر توجہ دے اور پورے ماحول کو اپنے گھر کے ماحول کا درجہ دے اسے آلودگی اور گندگی سے بچانے کی ایسی کوشش کرے جس طرح اپنے گھر بار کو کوئی صاف رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ماحولیاتی مسائل اگر یکسر ختم نہ ہوں تو ان میں کمی ضرور آئے۔