قومی یکجہتی: نوید ِسحر

آئین پاکستان کے تحت ملک میں رائج وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام میں وفاق اور صوبوں کی حیثیت گلدستے جیسی ہے جن کے باہمی تعاون سے ہی وفاق کے استحکام کی ضمانت ملتی ہے۔ وفاق اور صوبوں کے باہم تال میل اور ایک دوسرے کے ساتھ وسائل و پانی کی تقسیم اور اقتصادی و مالی معاملات میں کسی قسم کے تنارعات پیدا ہونے کی صورت میں ان کے حل کے لئے بھی آئین پاکستان نے ’گائیڈ لائنز‘ دے رکھی ہیں۔ وفاق اور صوبوں کے ایک دوسرے کے ساتھ معاملات آئین کی دفعہ 153 اور دفعہ 154 کے تحت قائم مشترکہ مفادات کونسل‘ آئین کی دفعہ 156 کے تحت تشکیل پانے والی قومی اقتصادی کونسل اور آئین کی دفعہ 160 کے تحت قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے طے ہوتے ہیں جبکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو مختلف مالی اور انتظامی معاملات میں بھی خودمختاری دی گئی ہے۔ بلاشک و شبہ وفاق اور صوبوں میں الگ الگ جماعتوں کی حکومتیں بھی قائم ہوں تو بھی متذکرہ آئینی اداروں کے ذریعے وفاق اور صوبوں میں باہمی تعاون اور تعلقات کار کی فضا استوار کی جا سکتی ہے۔اگر تو ایک ہی جماعت یا اتحاد کی وفاق اور صوبوں میں حکومتیں قائم ہوں تو وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین مثالی تعاون کی فضا استوار رہ سکتی ہے تاہم وفاق اور صوبوں میں ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں برسراقتدار ہوں تو ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم اور پوائنٹ سکورنگ کی بنیاد پر ہونے والی منفی سیاست میں ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کی بھی پاسداری نہیں ہو پاتی اور وفاق اور اس کی اکائیوں کا مضبوط باہمی تعلق بھی ماند پڑ جاتا ہے جس سے لامحالہ قومی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔ ایسے میں قومی یکجہتی کی فضا مستحکم بنانے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جو وفاق اور صوبوں میں مثالی تعاون سے ہی ممکن ہے۔ موجودہ دور حکومت میں بھی وفاق اور سندھ میں ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں برسراقتدار ہونے کے باعث باہمی تعاون کی مثالی فضا استوار نہیں ہو پائی اور مختلف تنازعات کی وجہ سے پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی میں حکومتی اور حزب اختلاف کے مابین اکثر گھمسان کا رن پڑتا رہتا ہے جبکہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے احتیاطی اقدامات میں بھی وفاق اور سندھ کی حکومتیں ایک دوسرے سے برسرپیکار نظر آئیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تجارتی مرکز ہونے کے باعث کراچی کی ترقی اور امن و استحکام سے ملکی ترقی و استحکام کی ضمانت ملتی ہے۔ اگر باہمی چپقلش اور سیاسی محاذآرائی سے کراچی کا امن خراب ہوگا تو اس سے صرف کراچی نہیں‘ پورے ملک کی ترقی کا عمل رک جائے گا۔  تاہم ہماری سیاست میں کچھ بھی حرف آ خر نہیں ہوتا۔ اس لئے ہمارے قومی سیاسی افق پر سیاسی دشمنیوں اور دوستیوں کے مناظر تبدیل ہونے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ مفادات و اقتدار کی سیاست میں منتخب ایوانوں میں ترجیحات تبدیلی ہوتی ہی رہتی ہیں۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چاہے بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں بھی سندھ کے ساتھ باہم مل کر چلنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اگر اس سوچ کو عملی قالب میں ڈھالا جاتا ہے تو اس سے کم از کم سیاسی انتشار کی بنیاد پر پیدا ہونے والی عدم استحکام کی صورتحال پر تو قابو پایا جا سکے گا۔ ممکن ہے وزیراعظم کی اس مثبت سوچ میں بھی مستقبل کی کسی سیاسی حکمت عملی کا عمل دخل ہو جس کے تحت آئندہ انتخابات کے لئے وفاقی حکمراں تحریک انصاف اور صوبائی حکمراں پیپلزپارٹی کے مابین انتخاب لڑنے کی کوئی مشترکہ حکمت عملی طے ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم کی سندھ کے ساتھ چلنے کی پیشکش کا جو بھی پس منظر ہو‘ اس سے فی الوقت وفاق اور سندھ کی حکومتوں کا باہمی تعاون ہی ملکی سلامتی اور اقتصادی ترقی و استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔ سسٹم میں رہتے ہوئے سیاسی اختلاف رائے بھی جمہوریت کے استحکام کی ضمانت بنتا ہے جبکہ خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی دشمنیوں تک پہنچا دیا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے کیا جواب آتا ہے اور اگر پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کی جانب سے باہمی تعاون کی غیرمشروط پیشکش کا خیرمقدم کیا اور مثبت جواب دیا‘ تو اس سے منتخب جمہوری نظام مضبوط ہوگا اور ملک کی ترقی و سلامتی کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے پر توانائیاں اور وسائل خرچ ہوں گے۔