عالمی منظرنامہ اور ملکی حالات

جنرل بپن راوت کی ہلاکت کی گھتی ابھی تک تا دم تحریر سلجھاہی نہیں جا سکی ایک پراسرار خاموشی ہے کہ جس نے مختلف شکوک وشبہات کو جنم دے دیا ہے ابھی تک بھارتی حکومت نے اس ضمن میں کھل کر کوئی بیان نہیں دیا اور حادثے کی اصل وجہ ہا وجوہات سے دنیا کو آ گاہ نہیں کیا ابھی تک جو اطلاعات ہیں وہ تو یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کا آ خری پیغام یہ تھا کہ وہ 7 منٹوں میں اپنی جائے مقصود پر لینڈ کرنے والا ہے۔ اس نے کوئی ایسا مسیج نہیں دیا کہ جس سے ظاہر ہوتاہو کہ ہیلی کاپٹر میں کوئی فنی خرابی پیدا ہو گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔بھارت میں اس وقت کئی صوبوں میں آ رمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ AFSPA مجریہ 1958 لاگو ہے جیسا کہ اسام اروناچل پردیش مانی پور مقبوضہ کشمیر اور میزو رام شامل ہیں کہ جس کے تحت بھارتی فوج کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ امن عامہ کو قائم رکھنے کیلئے کسی بھی شخص کو گولی مار سکتی ہے۔ آج بھارت کے کئی دانشور طبقے مودی سرکار ہر ببانگ دہل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ آ ر ایس ایس کے سیاسی ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے بھارتی افواج کو استعمال کر رہی ہے اور یہ روش اس لئے خطرناک ہے کہ اس سے بھارت کی افواج میں پھوٹ پڑ جانے کا بھی خدشہ ہے۔ جنرل بپن راوت کے ساتھ مودی کی غیر معمولی محبت اور عنایت کو سیاسی مبصرین شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت کئی طرح کے لاوے پک رہے ہیں، ایک طرف اگر ہندوتوا کے متوالوں نے اقلیتوں کا جینا حرام کر دیا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے ساتھ خاص طور پر امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ناگالینڈ اور دیگر کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں بھی زورو ں پر ہیں بلکہ کئی ریاستیں تو آپس میں برسر پیکار ہیں اور ایک طرح سے خانہ جنگی کاماحول ہے ایسے میں اگر مودی سرکاری فوج کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال کریگی تو پھر لازمی طور پر اس کے نتائج ایسے واقعات کی صورت میں نکل سکتی ہے جہاں اہم شخصیات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور حالیہ واقعے کو بھی اس ضمن میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو جس قدر نقصان ہندو انتہاپسند پہنچا رہے ہیں ان کی موجودگی میں اسے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے پرعمل پیرا مودی حکومت ایک طرح سے بھارت کیلئے خطرے کی علامت ہے جس نے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو تو کشیدہ رکھا ہی ہے خود بھارت کے اندر بھی حالات کو اس نہج پر لے گئی ہے کہ اب اندر ہی اندر پکنے والا لوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو بھارت میں آج جس طرح کے حالات ہیں وہ پوری دنیا کے لئے  خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ جوہری طاقت رکھنے والا ملک بھارت آج کل ہندو انتہا پسندوں کے نرغے میں ہے اور اب عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہئے کیونکہ آئے روز بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایسی سازشیں ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں وہاں مسلمانوں کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے اور انسانی حقوق کے اداروں کو بھی ان حالات سے آگاہی کا موقع نہیں دیا جا رہا حقیقت یہ ہے کہ امریکہ سمیت ان تمام ممالک کی پالیسیاں تجارتی بنیاد پر مرتب ہوتی ہیں نہ کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ کو دیکھا جاتا ہے اگر انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو بھارت کسی بھی طرح عالمی برادری کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کے قابل نہ ہوتا تاہم یہاں پر مارکیٹ اور منڈی کے اصولوں کے تحت ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کئے جاتے ہیں جس سے  بھارت فائدہ اٹھا رہا ہے اور انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ سالہا سال سے بدستور جاری ہے جس کا اب نوٹس لینا چاہئے۔ دوسری طرف یونان اور ترکی دونوں نیٹو کے ممبر تو ہیں ہی پر کئی معاملات میں دونوں کے آ پس میں گہرے اختلافات بھی ہیں قبرص پر ان کی آ پس میں دشمنی ضرب المثل ہے ظاہر ہے کہ اگر فرانس یا امریکہ یونان کے ہاتھ جدید ملٹری سازو سامان فروخت کرے گا تو ترکی نے اس پر سیخ پا توہونا ہی ہے۔ جس طرح کہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے اور جس سے یورپین یونین میں تفریق کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔اگر ہم اس خطے کے امن و امان کے حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجے ہر پہنچتے ہیں کہ کسی ملک کی اگر معیشت زبوں حال ہوتی ہے تو وہ بھی ایک سیکورٹی کا ایشو بن جاتی ہے اور متاثرہ ملک ایک سیاسی بحران کا شکار ہو جاتاہے۔ کمزور معیشت نوجوانوں میں بیروزگاری اور انتشار کا باعث بنتی ہے۔ معاشرے میں بھوک بیروزگاری کئی جرائم کو جنم دیتی ہے چوری چکاری ڈاکے اور قتل مقاتلے وغیرہ کمزور معیشت کی ہی تو پیداوار ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ”وقت کرتا ہے پرورش برسوں‘حادثہ ایک دم نہیں ہوتا“ ایک پرانا محاورہ ہے۔جیسا بوؤ گے ویسا ہی کاٹو گے۔ آج اگر ہم سر کے بال سے لے کر پاؤں کے انگھوٹے تک قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں تو اس میں ہمارے سابقہ حکمرانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایک پرانا مقولہ ہے کہ کوئی بھی کسی کو لنچ مفت میں نہیں کھلاتا ہمارے حکمرانوں نے ماضی میں ورلڈ بنک اور دیگر مالیاتی اداروں سے بے تحاشا قرض لئے اورآج ہم ان قرضوں کو بمعہ سود ادا کر رہے ہیں اور نہ جانے کب تک ایسا کرتے رہیں گے۔ ادھر ملک کی آ بادی ہے کہ جو بہت تیزی سے بڑھ رہی اور ایوان اقتدار میں پھرنے والوں کو رتی بھر بھی یہ خیال نہیں کہ اسے کیسے بریک لگائی جائے جب تک اس ضمن میں ہم موثر اقدامات نہیں اٹھائیں گے تو آبادی کا بے تحاشا بوجھ سے وہ غیر موثر ہوجائینگے۔ اب اس مسئلے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کہ آبادی اور وسائل میں توازن کو برقرار رکھنا پائیدار ترقی کیلئے لازمی ہے۔