اس میں کسی کا کیا جاتا ہے۔جہاں اتنی ترقی ہو رہی ہے۔ہر شعبہ میں کوشش ہے کہ معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہو تو پھر کسی کو اس پرکیا اعتراض ہو سکتا ہے۔یہاں سرکاری جلسہ گاہوں سے اعلان کے اوپر ایک اور اعلان ہوتا ہے۔ اگر اس اعلان پر عمل نہ ہو تو کیا اوراگر عمل ہو مگر اس میں دیر سویر ہو اور اتنی کہ دوسرے دن کی سویر مشرق کے افق سے نمودار ہوجائے۔ ایسے میں پھر کسی کا اس سے کیا لینا دینا۔ عرض کرتاہوں صاحب بس ہے اب ان کے لئے بھی کچھ سوچیں۔ اس نوجوان نسل کے لئے ان کی اٹھلاتی ہوئی بے قابو جوانیوں کے لئے کوئی مثبت سوچ جو صحیح معنوں میں ہو اس پر عمل پیرا ہونا ہی چاہئے۔ اگر اب بھی ان کے لئے ٹھوس اقدامات نہ ہوں تو پھر کب ہوں گے۔اگر کوئی اقدام نہیں تو سو بار نہ سہی۔مگر اعلان تو کردیں تاکہ ان کے من کو شانتی ملے ان کے دل کا غبار ہلکا ہو اور ان کا دل ٹھنڈا ہو کیوں نہ ان کھلنڈرے نوجوانوں کے لئے اب شہر ہی میں رہ کر کہیں آس پاس کہیں پاس پاس یا کہیں سڑک کے آرپار ہو شہر کے اندر ہو باہر ہو کہیں ان کے لئے الگ سا نقشہ بنا کر متوازی سہی مگر مین سڑک کے سروس روڈ پر کہیں اور کوئی ٹریک بنا دیں۔ تاکہ یہ لوہے کے گھوڑے کے گھڑ سوار یہ الیکٹرانک گھوڑے کے شہ سوار اپنے موٹر بائیکوں کو اس الگ سے راستے پر بجلی کی تیزی سے دوڑائیں خوب مشق کریں دل کا غبار نکالیں من کی بھڑاس نکالیں اور دوڑیں بھاگیں۔ یہ اپنی جان کے دشمن اپنی ہی جان کے دشمن نہیں ان کو تو اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں او ردیگر لواحقین کے ساتھ بھی پیار نہیں۔شہر کی سڑکو ں کو عین سکول سے چھٹی کے بعد کچل کچل کر ہموار کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے ریس ملاکر آگے بھاگتے ہوئے شریف گھرانوں کے چشم و چراغ شہر میں اسی الٹتے گرتے گھی کے چراغوں سے ان پردوں والے درو دیوار کو آگ لگانا چاہتے ہیں کہ جن سے یہ خود اور ان کے خاندان کی شرافیں لپٹی ہوئی ہیں۔ایک موٹر سائیکل پر چار چار آدمی تو کم ازکم سوار ہیں اور زگ زیگ ہوتے ہوئے جا رہے ہیں۔ایک دوسرے کو چھیڑتے ہیں۔ ایک بائیک والا دوسرے ساتھیوں والے بائیک کے اوپر تین سوار نوجوانوں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے جاتا ہے۔رش کی ان کو پروا نہیں۔ان کے لب و دنداں میں واہ تو ہے مگر دل سوزی کی دل دکھانے کی آہ نہیں۔ان کی دیکھا دیکھی بعض نوجوان تو کیا گذری عمر کے اشخاص بھی کبھی ون ویلنگ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔نوجوانو ں پر تو ہنسی آتی ہے کہ ان کو ذرا بھی اپنے اور والدین کی پروا نہیں۔پھر ان پر تو رونا آتا ہے جو عمر میں ان کم سنوں سے زیاد ہیں اور موٹے فربہ جسم کے ساتھ بائیک پرون ویلنگ کرتے ہوئے ون ٹو فائیوو موٹر سائیکل پر کرتب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر ان کے لئے کوئی ٹریک بن جائے تو کتنا اچھا ہو۔میٹرو کی بس کے روٹ کے ساتھ اگر بائی سائیکل کا راستہ بن سکتا ہے تو موٹر سائیکل کا ٹریک بناناکون سا مشکل کام ہے۔بھلا پہلے کسی نے سوچا تھا کہ پشاور کی بی آر ٹی اسی جی ٹی روڈ پر بنے گی۔ مگر بنا نے پر آئے تو آخر بنا لی۔یہ جدا بات کہ اس پر جتنے برس بھی لگے۔مگر اعتراض کرنے والوں کے لئے پھکی یہ کہ آخر بن توگئی نا۔کیونکہ سرکاری پا پیادہ اس ون ویلنگ کی روک تھام کے لئے ان کو روکنے اور تھامنے کو ان کے بجلی کے گھوڑوں کو نکیل اور مہار ڈالنے کواور ان کے بائیکوں کو سرکاری مال خانے میں ضبط کرنے میں کوشاں ہیں۔مگر یہ چھلاوے ان کی آنکھو ں میں دھول جھونک کر اس مصرع کی طرح ”اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے“ کی طرح جہاں ناکہ لگا کر روکو یہ دوسری جگہ سر نکال لیتے ہیں جی ٹی روڈ پر کسی اور اوقات میں کسی اور نام کسی اور موٹر سائیکل سے چلے آتے ہیں۔یونیورسٹی روڈ ہو یا رنگ روڈ ہو یا اندرون شہر کی لاہوری دروازے کے باہر کی سڑک سرکلر روڈ ہو یا پھر چارسدہ روڈ ان کو کسی کل قرار نہیں۔