کرکٹ: فتوحات کا آغاز

کرکٹ کی خوبی یہ ہے کہ اِس میں ماضی کے مقابلوں کی یاد نہیں رہتی۔ ایسے کتنے کرکٹ شائقین ہوں گے جنہیں ٹی ٹوئنٹی عالمی مقابلے کے سیمی فائنل میں پاکستان اور آسٹریلیاکے درمیان کھیلا گیا میچ یاد ہوگا؟ درحقیقت پاکستان کی ٹیم ایک عرصے سے ٹی ٹوئنٹی مقابلوں پر حاوی ہے اور تیرہ دسمبر کی شب ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ جیت کر پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں مسلسل جیتنے کا اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے لیکن پاکستان کے کھیل میں ابھی بھی کمزور شعبے ہیں‘ جن پر توجہ کر کے مستقبل میں کرکٹ کے سبھی فارمیٹ پر حکمرانی کی جا سکتی ہے۔پاکستان جیسی مسابقتی ٹیم سے اس کے ہوم گراؤنڈز پہ مقابلہ کسی بھرپور الیون کے لئے بھی نہایت کڑا ہوتا اور یہاں تو ویسٹ انڈیز کی ٹیم اپنے اولین انتخاب سے بھی محروم تھی بلاشبہ ویسٹ انڈیز نے پاور پلے میں بہت اچھی باؤلنگ کی اور رضوان کو بازو کھولنے کا موقع نہ دیا مگر بیچ کے اوورز میں جیسے جیسے رضوان کی اننگز مستحکم ہوتی گئی‘ نوآموز ویسٹ انڈین باؤلرز کا اعتماد گھٹتا گیا اور رضوان ابھی پکڑے نہ جا رہے تھے کہ حیدر علی کی ’یلغار‘ بھی شاملِ حال ہو گئی۔ پچھلے دو برس میں پاکستان نے جتنے بھی نئے چہرے آزمائے ہیں‘ ان میں سے سب سے زیادہ امیدیں ہمیشہ حیدر علی سے جڑی رہی ہیں مگر بدقسمتی سے حیدر علی اس بڑے سٹیج پہ اپنے ٹیلنٹ سے ویسا انصاف نہیں کر پائے تھے جس کا یہ متقاضی تھا۔ جدید کرکٹ میں جہاں مارا ماری کا دور دورہ ہے وہاں ایسے باصلاحیت اور دلکش بلے باز خال ہی ملتے ہیں۔ حیدر علی کی خوبصورتی بھی ان کے دلکش شاٹس ہیں مگر اس اننگز میں انہوں نے اپنے اعضا کی قوت کو بھی بھرپور طریقے سے آزمایا۔ ویسے بھی اگلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں وقت اتنا کم رہ گیا ہے کہ ہر میچ گویا اس کی تیاری کی طرف ایک قدم ہے۔ سو‘ ایسے میں حیدر علی کا مڈل آرڈر میں پرفارم کرنا پاکستان کیلئے نیک شگون ہے۔ آخری اوورز میں ویسٹ انڈین باؤلنگ پہ حیدر کی اننگز کا دباؤ ایسا تھا کہ بہتی گنگا میں نواز نے بھی خوب ہاتھ دھوئے۔ اگر ان کی اننگز کو منہا کیا جائے تو سکور بورڈ پہ سجا۔ممکنہ مجموعہ شاید نکولس پورن کے لئے کسی قدر حقیقت پسندانہ ہدف رہتا لیکن وکٹ بھلے ہی بیٹنگ کے لئے سازگار تھی‘ اس پاکستانی باؤلنگ اٹیک کا سامنا کرنا کسی تجربہ کار بیٹنگ لائن کے لئے بھی اچھا خاصا امتحان ہوتا کیونکہ یہ باؤلنگ اٹیک کسی بھی پارٹنرشپ کو زیادہ دیر سانس نہیں لینے دیتا۔ ایسے حالات میں کسی نوآموز الیون کا واحد چانس یہ ہوتا ہے کہ اس کے تجربہ کار کھلاڑی سارا بوجھ اپنے سر پہ اٹھا کے چلیں۔ اس لائن اپ میں شے ہوپ اور نکولس پورن ہی دو ایسے برج تھے جن پہ ویسٹ انڈیز کی ساری امیدیں منحصر تھیں۔ پورن نے آغاز بھی اچھا کیا مگر وہ وسیم کی استعداد کا درست اندازہ نہیں لگا پائے۔ وہ بہترین روانی سے بلا چلا رہے تھے مگر یہ بھول گئے کہ ہر گیند بلے پہ نہیں آیا کرتی اور جب کوئی زبردست یارکر آف سٹمپ سے اندر کو آئے تو حاضر دماغی اور خوش قسمتی کا امتزاج ہی نجات کا رستہ ہو سکتا ہے۔ پورن کے معاملے میں یہ امتزاج ممکن نہ ہو پایا۔ ہوپ نے پھر بھی کسی نہ کسی طور سے امیدوں کو کچھ زندہ رکھا مگر ایسے خطیر ہدف کے تعاقب میں جب تک شراکت داریاں نہ جڑیں‘ امکانات روشن نہیں ہوا کرتے۔ پاکستان کیلئے روشن پہلو یہ رہا کہ مڈل اوورز میں نواز کے ساتھ ساتھ شاداب خان بھی اپنی اسی فارم میں عود کر آئے جو ان کے کیرئیر کی ابتدا میں ان کی پہچان بنی تھی۔ یہ وہ شاداب تھے جو کسی بھی بلے باز کو آسان لینتھ فراہم نہیں کیا کرتے اور بسا اوقات اسے کریز سے نکلنے پہ مجبور کر چھوڑتے ہیں۔ ویسٹ انڈین مڈل آرڈر کے پاس شاداب کیلئے کوئی پلان نہیں تھا۔ پاکستان کیلئے خوشی سوا ہے کہ بھاری بھر کم ہوم سیزن کا آغاز ایسے مارجن کی فتح سے ہوا اور اس فتح میں بہت بڑا کردار ان کے مڈل آرڈر نے بھی نبھایا جہاں تجربے کی کسر حیدر علی کی فارم نے پوری کر دی۔اس دوران قومی ٹیم نے کئی ریکارڈز اپنے نام کئے۔ نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے پہلے میچ میں باآسانی 63 رنز سے کامیابی حاصل کرکے ایک سال میں سب سے زیادہ فتوحات کا ریکارڈ توڑ دیا۔قومی ٹیم نے اس سے قبل بنگلہ دیش کے خلاف 3 ٹی20 میچوں کی سیریز میں حریف ٹیم کو وائٹ واش کرکے سیریز جیت لی تھی اور یوں 2021 میں اپنی فتوحات کی تعداد 17 کرلی تھی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف 63 رنز کی فتح کے ساتھ ہی قومی ٹیم نے رواں برس ٹی20 طرز کرکٹ میں اپنی فتوحات کی تعداد 18 کرلی جو ایک ریکارڈ ہے۔پی سی بی کے مطابق قومی ٹیم نے اپنا ریکارڈ توڑا ہے، اس سے قبل پاکستانی ٹیم نے مختصر طرز کرکٹ میں 2018 میں 17 کامیابیاں سمیٹ لی تھیں۔بابراعظم کی قیادت میں قومی ٹیم نے متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے ٹی20 ورلڈ کپ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیمی فائنل میں جگہ بنائی تھی اور سیمی فائنل میں ناقابل شکست رہتے ہوئے رسائی کی تھی۔قومی ٹیم نے آئی سی سی کے ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارت کو شکست دینے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا اور فائنل تک رسائی کرنے والی مضبوط ٹیم نیوزی لینڈ کو بھی زیر کیا تھا۔تاہم آسٹریلیا نے سیمی فائنل میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو شکست دی اور اس کے بعد فائنل بھی جیت کر پہلی مرتبہ ٹی20 چمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔پاکستان کرکٹ ٹیم نے نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک اور مفرد ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیا۔ٹی20 کرکٹ میں 35 مرتبہ مخالف ٹیم کے تمام بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کا اعزاز حاصل کیا جو اس طرز کرکٹ میں کسی بھی ٹیم کا واحد کارنامہ ہے۔۔سیریز کے پہلے میچ میں بیٹنگ کے بعد باؤلنگ میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے قومی ٹیم نے بقیہ میچوں کیلئے فیورٹ کا اشارہ دے دیا ہے جبکہ ہوم گراؤنڈ کا فائدہ بھی حاصل کرسکتی ہے۔پہلے میچ میں کپتان بابراعظم صفر پر آؤٹ ہوئے مگر تجربہ کار بلے باز محمد رضوان نے پہلے فخر زمان اور پھر حیدرعلی کیساتھ شراکت قائم کرتے ہوئے ٹیم کو کامیابی کی راہ پر گامزن کردیا۔نوجوان حیدرعلی نے 68 رنز کی خوب صورت اننگز کھیلی اور ان کے ساتھ آخری اوورز میں محمد نواز نے 10 گیندوں پر 30 رنز بناکر 200 رنز کا مجموعہ ترتیب دیا۔باؤلنگ میں محمد وسیم اور شاداب خان نے بالترتیب 4 اور 3 وکٹیں حاصل کرکے 63 رنز کی کامیابی دلائی۔