واشنگٹن میں جمہوریت پر آن لائن سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کہا کہ جمہوریت، عالمی انسانی حقوق اور دنیا بھر میں درپیش مسلسل اور تشویش ناک چیلنجز کے مقابلے کیلئے 'چیمپئنزکی ضرورت ہے تو کیا امریکہ جمہوریت کا چیمپئن کہلا یا جاسکتا ہے؟امریکی صدر نے کہا کہ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا اور پریشان کن چیلنج عوام کا جمہوری حکومتوں پر عدم اطمینان ہے مگر جمہوریت کی تجدید نو اور جمہوری اداروں کی مضبوطی مستقل کوشش کی متقاضی ہے۔ ہمیں انصاف، قانون کی حکمرانی، تقریر کی آزادی، جلسے جلوسوں کی آزادی، آزاد میڈیا، مذہبی آزادی اور ہر فرد کے بنیادی انسانی حقوق کیلئے کھڑا ہونا ہو گا۔ آئیے ہم مل کر اپنے اس عزم کا اظہار کریں کہ مستقبل ان لوگوں کا ہوگا جو انسانی وقار کا احترام کریں گے؛ اپنے لوگوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کریں گے اور آزادیوں کے فروغ کیلئے کام کریں گے۔“صدر بائیڈن کی خوش کن باتیں ایک طرف، اگر ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور اس کانفرنس میں شریک لوگوں کے طرزعمل پر نظر رکھیں تو جمہوریت کی آزمائشیں اور اسے درپیش مشکلات اور خطرات آنے والے برسوں میں جاری رہیں گی۔اس کانفرنس میں شریک ممالک کی فہرست دیکھ کر یہ بات بلاخوف تردید کی جاسکتی ہے کہ امریکہ نے چین، روس، ترکی، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ کو نہیں بلایا جو اس کے تزویراتی حلیف نہیں یا مخالف ہیں اور بھارت، اسرائیل، پولینڈ، سربیا، برازیل، فلپائن، کانگو وغیرہ جیسے ممالک شریک کیے جہاں چند برسوں سے جمہوریت اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ اگر اس کانفرنس کے تزویراتی مقاصد نہ ہوتے اور یہ جمہوریت کانفرنس ہوتی تو اس میں تمام ممالک کو دعوت دی جا چکی ہوتی۔ اکانومسٹ کے مطابق، گزشتہ دہائی کے دوران آمریت کی طرف سب سے زیادہ جھکنے والے پانچ ممالک برازیل، کانگو، بھارت، پولینڈ اور سربیا اجلاس میں موجود تھے۔ ان کی موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ جمہوریت کے بارے میں اتنا سنجیدہ نہیں ہے جتنا وہ خود کو سمجھتا ہے۔ اکانومسٹ کے جمہوری اشاریئے کے مطابق 2020 میں دنیا کے 70 فیصد ممالک تنزلی کا شکار ہوئے۔ سویڈن کے تھنک ٹینک 'انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس نے دنیا میں جمہوریت پر اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے گزشہ دہائی کے دوران دنیا کی متعدد جمہوریتوں میں انحطاط پذیری کی رفتار دوگنا ہوگئی ہے۔ ان میں امریکہ جیسی مستحکم جمہوریت اور ہنگری، پولینڈ اور سلووینیا جیسے یورپی یونین کے ممالک بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا میں جمہوریت کو سب سے بڑا نقصان بھارت اور برازیل میں دیکھا گیا۔ انہوں نے ایسے اقدامات کیے جنہیں غیر جمہوری، نامناسب اور غیر قانونی کہا جاسکتا ہے۔ انسانی آزادی اعشاریہ 2020 کے مطابق بھارت کا جمہوریت اور آزادی کا درجہ 94 سے گر کر111 ہو گیا ہے۔ متنازعہ شہریت قانون، مسلم نجی قانون میں تبدیلی، گا ؤکشی وغیرہ کی جاری مہمات کی وجہ سے جلد بھارت میں نسلی جمہوریت ہوگی جہاں جمہوری حقوق چند نسلی گروہوں تک محدود ہوں گے اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہریوں کے بطور زندگی گزارنی ہو گی۔ چند ماہ قبل امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت میں اقلیتوں کو درپیش مسائل، ان سے بدترین سلوک اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی پر بھارت کو بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی مگر امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے معاشی مفادات کیلئے اس صورت حال سے چشم پوشی کر رہے ہیں چین کی جانب سے امریکہ میں 2020 میں جمہوریت کی صورتحال بارے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے امریکہ خود کو مثالی جمہوریت سمجھتا ہے مگر اس کے جمہوری اداروں میں سیاسی بدنظمی اور معاشرتی انتشار نے جنم دیا۔ دولت پر مبنی سیاست سے عوام کی رائے دب گئی اور امریکی انتخابات بنیادی طور پر جھوٹ اور دولت کے استعمال کا کھیل بن گئے۔ چنانچہ امریکہ کے عوام برائے نام سیاسی و سماجی حقوق رکھتے ہیں، امریکی جمہوری نظام پر لوگوں کا اعتماد 20 سالوں میں کم ترین سطح پرآگیا۔ نفرت انگیز سیاست ایک قومی طاعون کی شکل اختیار کرگئی اورانتخابات کے بعد پرامن انتقال اقتدارمشکل ہوگیا یہاں تک کہ دارالحکومت پر حملہ تک ہوگیا۔ امریکہ وہ سب کچھ کرنے لگا جو دوسرے کریں تو وہ ان پر تنقید کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں نسلی اقلیتی گروہوں کو منظم، جامع اور مستقل طور پر پورے ملک میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ نسلی امتیاز کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی کمیٹی اور نسلی امتیاز، عصری نسل پرستی اورعدم رواداری پر اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر نے امریکی میں نسلی امتیازکو خوفناک قرار دیا۔